رجمِ یہود! رجمِ محبت
پتھر تو لگنے تھے، ہم تھے بھی یہودی، ہمارے بزرگوں کے سوالات نے آقاﷺ کو پریشان کر رکھا تھا، کبھی نبوت کی نشانیاں مانگتے تو کبھی معجزات کی مانگ کرتے۔ میں بھی انہی یہودیوں کی بیٹی تھی، اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی، اس کی جائیداد کی اکلوتی وارث۔ میرے باپ کے پاس یثرب کے بہترین باغات تھے، میرا نام بھی خدیجہ تھا، وہ نصرانی تھی میں یہودی۔ بچپن یثرت کی گلیوں میں کھیلتے ہوئے گزرا، میرے ہی قبیلے کے ایک نوجوان سے محبت کرنے لگی۔ وہ خوبرو تھا، میں حسین، دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ وہ تاجر، شام اور مصر تک تجارتی سفر کرتا۔ کئی کئی ماہ میں یثرب میں اس کی راہ تکتی رہتی۔
اس بار وہ ثثرب سے شام جا رہا تھا چھ نئے چاند دیکھنے کے بعد واپس آنے والا تھا۔ میں نے اس سے کہا میں جوان ہو گئی ہوں اب میرے باپ سے میرا ہاتھ مانگ لو، اس نے کہا اس بار واپسی پر تمہاری ماں اور تمہارے باپ کے لئے مُر اور خوبصورت پوشاک لے آؤں گا، تمہاری ماں کے لئے سونے کے کنگن اور یونانی عطر، یہ کہہ کر وہ مغرب میں غروب ہوتے سورج کی سمت اپنے باپ کے اونٹوں کے قافلے کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ میں چاند کے اتار چڑھاؤ گننے لگے، کبھی بکریوں سے باتیں کرتی، کبھی اپنے گھر کے صحن میں ڈالی ہوئی پینگ جھلاتی اور یوسف کو یاد کرتی۔ آنکھوں میں ہزار سپنے، ہونٹوں پر انجانی مسکراہٹ، میری ماں میری کیفیت کو بھانپ گئی۔ اس نے مجھ سے میری بے چینی کا سبب پوچھا پہلے میں جھجھکی مگر ماں کی آنکھوں میں شفقت اور اپنائیت کی جھلک دیکھ کر بتایا کہ یوسف آ کر میرا ہاتھ مانگے گا، ماں بھی مسکرا دی، اور بولی " شکر ہے تجھے تیرا من چاہا ساتھی مل گیا"۔
یونہی دن گزرنے لگے، ایک دن خبر ملی کے میرے تایا زاد یہودہ کی بیوی فوت ہو گئی ہے، ہم اس کے گھر گئے ماتم کا سماں تھا۔ لوگ افسوس کرنے لگے، ہر سو یہی باتیں تھی تیس سال سے بے اولاد رہنے والا جوڑا آج ٹوٹ گیا۔ کئی لوگ ربقہ کی مظلومیت کی داستانین چوری چوری سنا رہے تھے۔ میرا تایا زاد نے مار کر اس کی بازو تک توڑ دی تھی، میری ماں افسوس کرتی تو کئی دوسری عورتیں افسوس کرتی۔ حتیٰ کہ لوگ میرے تایا زاد بھائی کو پاگل جلاد کہتے رہے۔
اس کے ایک ماہ بعد میرا تایا زاد میرے والد سے ملنے آیا، مگر میرے والد اور اس میں کچھ تکرار ہوئی اور وہ چلا گیا۔ اگلے روز وہ کاہن اور قبیلے کے بزرگوں کو لے کر آیا۔ یہ سب میرے والد سے ہجرے میں بحث کرتے رہے اور بالآخر چلے گئے۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کیا معاملہ ہے، اس نے کہا جو بھی معاملہ تھا ٹل گیا ہے، اور ہمیں یوسف کا انتظار ہے وہ آئے اور تجھے اپنے گھر لے جائے۔
اسی رات میری ماں نے مجھے جگایا، میرے والد کا بخار اترنے میں نہیں آ رہا تھا، ہم دونوں اس کو پٹیاں لگانے لگی اور لونڈی کو طبیب بلانے بھیج دیا، طبیب آیا، دوا دی، اور کہا اگر صبح تک تپ نہ اتری تو سارا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے، صبح تک تپ اترنے میں نہ آئی اور پو پھٹتے ہی ابا کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ ماتمی آئے روتے رہے، مگر مجھے ایک آنسو نہ آیا، کب ابا قبر میں اتارے گئے مجھے یاد تک نہیں، تیسرے دن جا کر ہوش آئی اور باپ کی قبر سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روئی۔ وہی اکیلا سہارا تھا، میں اور بوڑھی ماں کہاں جاتے۔ یوسف ابھی تک نہ آیا تھا، ماں پورے دن میں دو کھجوریں تک نہ کھاتی تھی، بس دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی رہتی، اس کی آنکھوں کے آنسو بھی رو رو کر سوکھ چکے تھے۔ مجھے اب ماں کی فکر ہونے لگی، اس سے کہا باپ چلا گیا اب تم بھی مت چلی جانا میں اکیلی کہاں جاؤں گی۔ ماں میری خاطر کھانے لگی، کچھ بہتر بھی رہنے لگی، مگر دکھ اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایک صبح جاگی تو دیکھا ماں بھی جہاں سے رخصت ہو چکی تھی۔ وہی ماتم وہی صورت، اس بار میں ماں کی منتیں کرتی رہی کہ اٹھ جا جاگ جا مگر وہ نہ جاگی۔
ماں کی موت کو چند دن نہ گزرے تھے، میرے تایا، چچا اور پھوپھی مجھ سے ملنے آ گئے۔ ان کی باتیں سن کر میں دنگ رہ گئی۔ انہوں نے کہا یہودہ نے تمہارا ہاتھ تمہارے باپ سے مانگا تھا، مگر تمہارا باپ راضی نہ ہوا، مگر اب تمہارے سر کا سائیں نہیں ہے، کنواری ہو اکیلی ہو، اب تمہیں یہودہ سے شادی کرنی ہو گی۔ شریعت بھی یہی کہتی ہے، اگر کسی کی صرف بیٹیاں ہو تو وہ شادی اپنے ہی خاندان میں کرے تا کہ گھر کی جائیداد گھر میں رہ جائے۔ میں نے انکار کیا، مگر کچھ کارگر ثابت نہ ہوا کاہنوں کی نصیحتیں، قبیلے کی عزت کے واسطے دے کر مجھے یہودہ سے بیاہ دیا گیا۔ میں نے کبھی اس شادی پر ہاں نہ کی تھی، مگر شریعتی اصول کے مطابق اب میرے باپ کی جگہ میرا تایا یعنی یہودہ کا والد تھا، اس لئے اس نے اس رشتے کی منظوری دی اور شادی ہو گئی۔
شادی کی رات یہودہ نے ایک لاش سے مباشرت کی اور دوسری طرف منہ کر کے سو گیا، میں ساری رات جاگتی رہی، یوسف کو کوستی رہی، کیا اچھا ہوتا وہ جانے سے قبل ہی میرا ہاتھ مانگ لیتا، کاش، کاش، کاش۔۔۔۔ کئی بار اس کے لئے دل سے بد دعائیں نکلتی کہ راستے میں بدو اسے لوٹ کر قتل کر دیں۔
چند دن بعد بازار میں برتن خریدنے گئی تو یوسف سامنے کھڑا تھا۔ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی، الٹنے پاؤں مڑی مگر وہ سامنے آ کر کھڑا ہو گیا بات کرنے کا کہنے لگا، میں چپ رہی مگر وہ نہ ہٹھا، میں زبردستی اسے رستے سے ہٹا کر دوڑتی گھر چلی آئی۔
اگلی روز اس نے میری لونڈی کے ہاتھ ملنے کا پیغام بھیجا کہا کہ ایک بار مل لو، میں نے لونڈی سے کہا اسے کہوں کھجور کے باغ والے کنوئیں پر آ جائے۔ ملی تو چپ تھی مگر آنکھوں کے آنسو سارا احوال بیان کر رہے تھے، اس نے مجھے سینے سے لگایا تو میں پھوٹ پھوٹ کر رو دی، کمزور ہاتھوں سے اس کے سینے کو پیٹنے لگی۔ یوسف شام سے جلدی واپس آیا تھا، اس کو یثرب کے ایک تاجر نے میرے باپ کی موت کا بتا دیا تھا۔ مگر اسے آنے میں پھر بھی دیر ہو گئی۔
اس دن جب میں گھر پہنچی تو یہودہ، مجھے سرخ آنکھوں سے گھور رہا تھا، میں اس نے گھوڑے کی چابک اٹھائی اور مجھے پیٹنے لگا، میں نیچے گری، اور یہ پاؤں سے مجھے ٹھوکریں مارنے لگا، اس کا پاؤں میری ناک پر لگا، اور مجھے اپنی ناک میں کچھ گرم محسوس ہوا، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ آنکھ کھلی تو لونڈی گیلے کپڑے سے میرا چہرا صاف کر رہی تھی۔ میں نے اس کی منت کی کہ یوسف کو جا کر میری حالت بتا دینا۔ اگلے دن وہ اس کا پیغام لے کر آئی، اس نے کہا یوسف نے کہا ہے کہ میں اس کے ساتھ بھاگ جاؤں، اس کے خاندان کے لوگ سکندریہ میں رہتے ہیں۔ سکندریہ بڑا شہر ہے تجارت کا کام بہترین ہے، لوگ یہودیوں کی عزت کرتے ہیں، ساری زندگی وہیں گزر جائے گی۔
میں سوچنے لگی باپ کے گھر، ماں کی یادوں اور یثرت کی خوبصورت شاموں کو چھوڑ دوں مگر پھر سوچا اب اس شہر میں میرا ہے ہی کون، نا ماں نا باپ، دشمن رشتہ دار ظالم کاہن، اور وہ جائیداد جو میری نہیں۔ سوچا چلے جانا ہی مناسب ہے۔ میں نے لونڈی سے کہا یوسف کو پیغام دے دے پورے چاند کی رات بیر بُصّہ پر میر انتظار کرے۔
پورے چاند کی رات میں نے اپنی ماں کی نشانی ایک جوڑا اور اپنے باپ کی ٹوپی ایک کپڑے میں باندھی، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیر بُصہ کی جانب چلنے لگی، چاند کی روشنی میں مجھے دو اونٹ اور ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑے نظر آئے، میں تیزی سے قدم اٹھاتی اس جانب بڑھی۔ اور ایک دم سے یوسف نے مجھے تھام لیا، میرے ماتھے کا بوسہ لیا اور ایک اونٹ پر مجھے سوار کرانے لگا۔ مگر اسی لمحے گھوڑوں کے سموں کی آواز آئی دس کے قریب گھوڑوں نے ہمیں چاروں جانب سے گھیر لیا۔ یہودہ اور اس کے خادم ہم تک پہنچ چکے تھے۔
صبح ہمیں کاہن کی عدالت میں پیش کیا گیا، یہودہ اور اس کے خادموں نے ہم پر زنا کی گواہی دی ۔ کاہن نےکہا ان دونوں کے منہ کالے کر کے گدھوں پر الٹا بٹھا کر یثرب کی گلیوں میں پھرایا جائے۔ مگر یہودہ رجم کی مانگ کرنے لگا، وہ اصرار کرنے لگا کہ موسیٰ کی شریعت میں زنا کی سزا رجم ہے۔ مگر قاضی نے اس کی بات پر توجہ نہ دی، میرا منہ کالا کر دیا گیا۔ گدھے پر بٹھایا گیا۔
مگر کچھ دیر بعد یہودہ کچھ غیر قوم لوگوں کے ساتھ آیا، اس سے پہلے کہ قاضی اور یہودی کچھ کہتے ان لوگوں نے ہمیں گدھوں سے اتارا اور یثرب کی گلیوں سے گزارتے محمد کے سامنے لے آئے۔ یہودہ نے ہمارا معاملہ محمد سے بیان کیا، محمد کھڑے ہوئے اور با آوازِ بلند پوچھا "تورات میں زنا کی کیا سزا ہے؟"۔ ایک کاہن نے جواب دیا "ہم ایسے لوگوں کے منہ کالے کر کے گدھے پر الٹا بٹھا کر گلیوں میں گھماتے ہیں"۔ پاس کھڑے ایک غیر قوم مرد نے کہا " یا رسول اللہ تورات منگوائیے" تورات منگوائی گئی اور کاہن اس کو پڑھنے لگا، مگر اس نے رجم کی آیت کو اپنے ہاتھ سے چھپا لیا، وہی مرد قریب آیا اور کاہن کا ہاتھ ہٹا دیا اور اس سے پڑھنے کا کہا، کاہن نے رجم کا حکم پڑھا۔
اس پر محمد نے ہمیں رجم کرنے کا حکم دیا، میں چاروں طرف ہجوم کو دیکھ رہی تھی، میرے جسم پسینے سے شرابور تھا، یوسف ایک جانب ہاتھ بندھے کھڑا تھا۔ ہجوم پتھر اٹھائے کھڑا ۔ مگر میری نظر یہودہ پر تھی، اس کے دونوں ہاتھوں میں پتھر اور چہرے پر اطمنان تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خوش ہے۔ ہم دونوں کو کھڑا کیا گیا۔ پہلا پتھر مارنا یہودہ کا حق تھا، اس نے جب پتھر پھینکا تو یوسف بندھے ہاتھوں سے ہی مجھ پر گر پڑا، جیسے ہی وہ میرے اوپر آیا میں گھٹنوں کے بل ہو گئی، اور وہ میرے سامنے تھا، کئی پتھر آئے اور دھب دھب سے اس کے جسم سے ٹکرانے لگے، مگر وہ سامنے ہی رہا، چھوٹے بڑے کئی درجن پتھر اس کو لگے، درد سے اس کی آہیں نکلی۔ خون اس کے چہرے سے ڈھلتا میرے چہرے پر ٹپکنے لگا، اس کی آنکھوں میں درد تھا، مگر سکون بھی تھا، محبت تھی پر قرب بھی تھا۔ شائد وہ اس سزا کا سزاوار صرف خود کو سمجھتا تھا، شائد اس کا جرم مجھے چھوڑ کر جانا تھا، اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہا ہو " میری جان فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو گا، ہم جنتِ الفردوس میں ملیں گے"۔ دھب کی آواز آئی بھاری پتھر اس کے سر کے عقبی حصے میں لگا تھا، وہ میرے اوپر گر گیا، میں اس کے نیچے دب گئی۔ ایسا لگا جیسے میں دنیا کی محفوظ ترین پناہ گاہ میں ہوں۔ لوگوں نے پتھر مارے مگر سبھی اس کے ساکن جسم سے ٹکرانے لگے۔ پھر کسی نے آواز کی "مر گیا ہے،اس کو ہٹا دو"، وہی مرد جس نے تورات لانے کا مشورہ دیا تھا آگے بڑھا اور یوسف کو میرے اوپر سے ہٹا دیا، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں نے منت کی "تھوڑی دیر اسے میرے اوپر پڑا رہنے دو"، مگر وہ کچھ کہے بغیر یوسف کو میرے اوپر سے ہٹا کر فاصلے پر چلا گیا، جیسے ہی اس نے اشارہ کیا کئی پتھر میرے وجود سے ٹکرائے، اس لمحے مجھے محبت کی طاقت کا احساس ہوا، اس لمحے میں سمجھی کہ یوسف مجھ سے کتنی محبت کرتا تھا۔ مگر اسی درد میں کسی وقت میرا وجود کہیں گم ہو گیا، درد اور تکلیف اندھیرے اور تاریکی میں کب تبدیل ہوئے مجھے معلوم نہیں۔ میں نہیں جانتی محبت موت کے بعد زندہ رہتی ہے یا نہیں مگر محبت کو زندگی میں بھی جینے نہیں دیا جاتا۔
غالب کمال
http://www.islamicurdubooks.com/Sahih-Bukhari/Sahih-Bukhari-.php?hadith_number=6819: ریفرنس