Thursday, May 31, 2018

رجمِ یہود! رجمِ محبت


Image result for rajam

رجمِ یہود! رجمِ محبت

پتھر تو لگنے تھے، ہم تھے بھی یہودی، ہمارے بزرگوں کے سوالات نے آقاﷺ کو پریشان کر رکھا تھا، کبھی نبوت کی نشانیاں مانگتے تو کبھی معجزات کی مانگ کرتے۔ میں بھی انہی یہودیوں کی بیٹی تھی، اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی، اس کی جائیداد کی اکلوتی وارث۔ میرے باپ کے پاس یثرب کے بہترین باغات تھے، میرا نام بھی خدیجہ تھا، وہ نصرانی تھی میں یہودی۔ بچپن یثرت کی گلیوں میں کھیلتے ہوئے گزرا، میرے ہی قبیلے کے ایک نوجوان سے محبت کرنے لگی۔ وہ خوبرو تھا، میں حسین، دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ وہ تاجر، شام اور مصر تک تجارتی سفر کرتا۔ کئی کئی ماہ میں یثرب میں اس کی راہ تکتی رہتی۔
اس بار وہ ثثرب سے شام جا رہا تھا چھ نئے چاند دیکھنے کے بعد واپس آنے والا تھا۔ میں نے اس سے کہا میں جوان ہو گئی ہوں اب میرے باپ سے میرا ہاتھ مانگ لو، اس نے کہا اس بار واپسی پر تمہاری ماں اور تمہارے باپ کے لئے مُر اور خوبصورت پوشاک لے آؤں گا، تمہاری ماں کے لئے سونے کے کنگن اور یونانی عطر، یہ کہہ کر وہ مغرب میں غروب ہوتے سورج کی سمت اپنے باپ کے اونٹوں کے قافلے کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ میں چاند کے اتار چڑھاؤ گننے لگے، کبھی بکریوں سے باتیں کرتی، کبھی اپنے گھر کے صحن میں ڈالی ہوئی پینگ جھلاتی اور یوسف کو یاد کرتی۔ آنکھوں میں ہزار سپنے، ہونٹوں پر انجانی مسکراہٹ، میری ماں میری کیفیت کو بھانپ گئی۔ اس نے مجھ سے میری بے چینی کا سبب پوچھا پہلے میں جھجھکی مگر ماں کی آنکھوں میں شفقت اور اپنائیت کی جھلک دیکھ کر بتایا کہ یوسف آ کر میرا ہاتھ مانگے گا، ماں بھی مسکرا دی، اور بولی " شکر ہے تجھے تیرا من چاہا ساتھی مل گیا"۔
یونہی دن گزرنے لگے، ایک دن خبر ملی کے میرے تایا زاد یہودہ کی بیوی فوت ہو گئی ہے، ہم اس کے گھر گئے ماتم کا سماں تھا۔ لوگ افسوس کرنے لگے، ہر سو یہی باتیں تھی تیس سال سے بے اولاد رہنے والا جوڑا آج ٹوٹ گیا۔ کئی لوگ ربقہ کی مظلومیت کی داستانین چوری چوری سنا رہے تھے۔ میرا تایا زاد نے مار کر اس کی بازو تک توڑ دی تھی، میری ماں افسوس کرتی تو کئی دوسری عورتیں افسوس کرتی۔ حتیٰ کہ لوگ میرے تایا زاد بھائی کو پاگل جلاد کہتے رہے۔
اس کے ایک ماہ بعد میرا تایا زاد میرے والد سے ملنے آیا، مگر میرے والد اور اس میں کچھ تکرار ہوئی اور وہ چلا گیا۔ اگلے روز وہ کاہن اور قبیلے کے بزرگوں کو لے کر آیا۔ یہ سب میرے والد سے ہجرے میں بحث کرتے رہے اور بالآخر چلے گئے۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کیا معاملہ ہے، اس نے کہا جو بھی معاملہ تھا ٹل گیا ہے، اور ہمیں یوسف کا انتظار ہے وہ آئے اور تجھے اپنے گھر لے جائے۔
اسی رات میری ماں نے مجھے جگایا، میرے والد کا بخار اترنے میں نہیں آ رہا تھا، ہم دونوں اس کو پٹیاں لگانے لگی اور لونڈی کو طبیب بلانے بھیج دیا، طبیب آیا، دوا دی، اور کہا اگر صبح تک تپ نہ اتری تو سارا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے، صبح تک تپ اترنے میں نہ آئی اور پو پھٹتے ہی ابا کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ ماتمی آئے روتے رہے، مگر مجھے ایک آنسو نہ آیا، کب ابا قبر میں اتارے گئے مجھے یاد تک نہیں، تیسرے دن جا کر ہوش آئی اور باپ کی قبر سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روئی۔ وہی اکیلا سہارا تھا، میں اور بوڑھی ماں کہاں جاتے۔ یوسف ابھی تک نہ آیا تھا، ماں پورے دن میں دو کھجوریں تک نہ کھاتی تھی، بس دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی رہتی، اس کی آنکھوں کے آنسو بھی رو رو کر سوکھ چکے تھے۔ مجھے اب ماں کی فکر ہونے لگی، اس سے کہا باپ چلا گیا اب تم بھی مت چلی جانا میں اکیلی کہاں جاؤں گی۔ ماں میری خاطر کھانے لگی، کچھ بہتر بھی رہنے لگی، مگر دکھ اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایک صبح جاگی تو دیکھا ماں بھی جہاں سے رخصت ہو چکی تھی۔ وہی ماتم وہی صورت، اس بار میں ماں کی منتیں کرتی رہی کہ اٹھ جا جاگ جا مگر وہ نہ جاگی۔
ماں کی موت کو چند دن نہ گزرے تھے، میرے تایا، چچا اور پھوپھی مجھ سے ملنے آ گئے۔ ان کی باتیں سن کر میں دنگ رہ گئی۔ انہوں نے کہا یہودہ نے تمہارا ہاتھ تمہارے باپ سے مانگا تھا، مگر تمہارا باپ راضی نہ ہوا، مگر اب تمہارے سر کا سائیں نہیں ہے، کنواری ہو اکیلی ہو، اب تمہیں یہودہ سے شادی کرنی ہو گی۔ شریعت بھی یہی کہتی ہے، اگر کسی کی صرف بیٹیاں ہو تو وہ شادی اپنے ہی خاندان میں کرے تا کہ گھر کی جائیداد گھر میں رہ جائے۔ میں نے انکار کیا، مگر کچھ کارگر ثابت نہ ہوا کاہنوں کی نصیحتیں، قبیلے کی عزت کے واسطے دے کر مجھے یہودہ سے بیاہ دیا گیا۔ میں نے کبھی اس شادی پر ہاں نہ کی تھی، مگر شریعتی اصول کے مطابق اب میرے باپ کی جگہ میرا تایا یعنی یہودہ کا والد تھا، اس لئے اس نے اس رشتے کی منظوری دی اور شادی ہو گئی۔
شادی کی رات یہودہ نے ایک لاش سے مباشرت کی اور دوسری طرف منہ کر کے سو گیا، میں ساری رات جاگتی رہی، یوسف کو کوستی رہی، کیا اچھا ہوتا وہ جانے سے قبل ہی میرا ہاتھ مانگ لیتا، کاش، کاش، کاش۔۔۔۔ کئی بار اس کے لئے دل سے بد دعائیں نکلتی کہ راستے میں بدو اسے لوٹ کر قتل کر دیں۔
چند دن بعد بازار میں برتن خریدنے گئی تو یوسف سامنے کھڑا تھا۔ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی، الٹنے پاؤں مڑی مگر وہ سامنے آ کر کھڑا ہو گیا بات کرنے کا کہنے لگا، میں چپ رہی مگر وہ نہ ہٹھا، میں زبردستی اسے رستے سے ہٹا کر دوڑتی گھر چلی آئی۔
اگلی روز اس نے میری لونڈی کے ہاتھ ملنے کا پیغام بھیجا کہا کہ ایک بار مل لو، میں نے لونڈی سے کہا اسے کہوں کھجور کے باغ والے کنوئیں پر آ جائے۔ ملی تو چپ تھی مگر آنکھوں کے آنسو سارا احوال بیان کر رہے تھے، اس نے مجھے سینے سے لگایا تو میں پھوٹ پھوٹ کر رو دی، کمزور ہاتھوں سے اس کے سینے کو پیٹنے لگی۔ یوسف شام سے جلدی واپس آیا تھا، اس کو یثرب کے ایک تاجر نے میرے باپ کی موت کا بتا دیا تھا۔ مگر اسے آنے میں پھر بھی دیر ہو گئی۔
اس دن جب میں گھر پہنچی تو یہودہ، مجھے سرخ آنکھوں سے گھور رہا تھا، میں اس نے گھوڑے کی چابک اٹھائی اور مجھے پیٹنے لگا، میں نیچے گری، اور یہ پاؤں سے مجھے ٹھوکریں مارنے لگا، اس کا پاؤں میری ناک پر لگا، اور مجھے اپنی ناک میں کچھ گرم محسوس ہوا، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ آنکھ کھلی تو لونڈی گیلے کپڑے سے میرا چہرا صاف کر رہی تھی۔ میں نے اس کی منت کی کہ یوسف کو جا کر میری حالت بتا دینا۔ اگلے دن وہ اس کا پیغام لے کر آئی، اس نے کہا یوسف نے کہا ہے کہ میں اس کے ساتھ بھاگ جاؤں، اس کے خاندان کے لوگ سکندریہ میں رہتے ہیں۔ سکندریہ بڑا شہر ہے تجارت کا کام بہترین ہے، لوگ یہودیوں کی عزت کرتے ہیں، ساری زندگی وہیں گزر جائے گی۔
میں سوچنے لگی باپ کے گھر، ماں کی یادوں اور یثرت کی خوبصورت شاموں کو چھوڑ دوں مگر پھر سوچا اب اس شہر میں میرا ہے ہی کون، نا ماں نا باپ، دشمن رشتہ دار ظالم کاہن، اور وہ جائیداد جو میری نہیں۔ سوچا چلے جانا ہی مناسب ہے۔ میں نے لونڈی سے کہا یوسف کو پیغام دے دے پورے چاند کی رات بیر بُصّہ پر میر انتظار کرے۔
پورے چاند کی رات میں نے اپنی ماں کی نشانی ایک جوڑا اور اپنے باپ کی ٹوپی ایک کپڑے میں باندھی، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیر بُصہ کی جانب چلنے لگی، چاند کی روشنی میں مجھے دو اونٹ اور ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑے نظر آئے، میں تیزی سے قدم اٹھاتی اس جانب بڑھی۔ اور ایک دم سے یوسف نے مجھے تھام لیا، میرے ماتھے کا بوسہ لیا اور ایک اونٹ پر مجھے سوار کرانے لگا۔ مگر اسی لمحے گھوڑوں کے سموں کی آواز آئی دس کے قریب گھوڑوں نے ہمیں چاروں جانب سے گھیر لیا۔ یہودہ اور اس کے خادم ہم تک پہنچ چکے تھے۔
صبح ہمیں کاہن کی عدالت میں پیش کیا گیا، یہودہ اور اس کے خادموں نے ہم پر زنا کی گواہی دی ۔ کاہن نےکہا ان دونوں کے منہ کالے کر کے گدھوں پر الٹا بٹھا کر یثرب کی گلیوں میں پھرایا جائے۔ مگر یہودہ رجم کی مانگ کرنے لگا، وہ اصرار کرنے لگا کہ موسیٰ کی شریعت میں زنا کی سزا رجم ہے۔ مگر قاضی نے اس کی بات پر توجہ نہ دی، میرا منہ کالا کر دیا گیا۔ گدھے پر بٹھایا گیا۔
مگر کچھ دیر بعد یہودہ کچھ غیر قوم لوگوں کے ساتھ آیا، اس سے پہلے کہ قاضی اور یہودی کچھ کہتے ان لوگوں نے ہمیں گدھوں سے اتارا اور یثرب کی گلیوں سے گزارتے محمد کے سامنے لے آئے۔ یہودہ نے ہمارا معاملہ محمد سے بیان کیا، محمد کھڑے ہوئے اور با آوازِ بلند پوچھا "تورات میں زنا کی کیا سزا ہے؟"۔ ایک کاہن نے جواب دیا "ہم ایسے لوگوں کے منہ کالے کر کے گدھے پر الٹا بٹھا کر گلیوں میں گھماتے ہیں"۔ پاس کھڑے ایک غیر قوم مرد نے کہا " یا رسول اللہ تورات منگوائیے" تورات منگوائی گئی اور کاہن اس کو پڑھنے لگا، مگر اس نے رجم کی آیت کو اپنے ہاتھ سے چھپا لیا، وہی مرد قریب آیا اور کاہن کا ہاتھ ہٹا دیا اور اس سے پڑھنے کا کہا، کاہن نے رجم کا حکم پڑھا۔
اس پر محمد نے ہمیں رجم کرنے کا حکم دیا، میں چاروں طرف ہجوم کو دیکھ رہی تھی، میرے جسم پسینے سے شرابور تھا، یوسف ایک جانب ہاتھ بندھے کھڑا تھا۔ ہجوم پتھر اٹھائے کھڑا ۔ مگر میری نظر یہودہ پر تھی، اس کے دونوں ہاتھوں میں پتھر اور چہرے پر اطمنان تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خوش ہے۔ ہم دونوں کو کھڑا کیا گیا۔ پہلا پتھر مارنا یہودہ کا حق تھا، اس نے جب پتھر پھینکا تو یوسف بندھے ہاتھوں سے ہی مجھ پر گر پڑا، جیسے ہی وہ میرے اوپر آیا میں گھٹنوں کے بل ہو گئی، اور وہ میرے سامنے تھا، کئی پتھر آئے اور دھب دھب سے اس کے جسم سے ٹکرانے لگے، مگر وہ سامنے ہی رہا، چھوٹے بڑے کئی درجن پتھر اس کو لگے، درد سے اس کی آہیں نکلی۔ خون اس کے چہرے سے ڈھلتا میرے چہرے پر ٹپکنے لگا، اس کی آنکھوں میں درد تھا، مگر سکون بھی تھا، محبت تھی پر قرب بھی تھا۔ شائد وہ اس سزا کا سزاوار صرف خود کو سمجھتا تھا، شائد اس کا جرم مجھے چھوڑ کر جانا تھا، اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہا ہو " میری جان فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو گا، ہم جنتِ الفردوس میں ملیں گے"۔ دھب کی آواز آئی بھاری پتھر اس کے سر کے عقبی حصے میں لگا تھا، وہ میرے اوپر گر گیا، میں اس کے نیچے دب گئی۔ ایسا لگا جیسے میں دنیا کی محفوظ ترین پناہ گاہ میں ہوں۔ لوگوں نے پتھر مارے مگر سبھی اس کے ساکن جسم سے ٹکرانے لگے۔ پھر کسی نے آواز کی "مر گیا ہے،اس کو ہٹا دو"، وہی مرد جس نے تورات لانے کا مشورہ دیا تھا آگے بڑھا اور یوسف کو میرے اوپر سے ہٹا دیا، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں نے منت کی "تھوڑی دیر اسے میرے اوپر پڑا رہنے دو"، مگر وہ کچھ کہے بغیر یوسف کو میرے اوپر سے ہٹا کر فاصلے پر چلا گیا، جیسے ہی اس نے اشارہ کیا کئی پتھر میرے وجود سے ٹکرائے، اس لمحے مجھے محبت کی طاقت کا احساس ہوا، اس لمحے میں سمجھی کہ یوسف مجھ سے کتنی محبت کرتا تھا۔ مگر اسی درد میں کسی وقت میرا وجود کہیں گم ہو گیا، درد اور تکلیف اندھیرے اور تاریکی میں کب تبدیل ہوئے مجھے معلوم نہیں۔ میں نہیں جانتی محبت موت کے بعد زندہ رہتی ہے یا نہیں مگر محبت کو زندگی میں بھی جینے نہیں دیا جاتا۔
غالب کمال
http://www.islamicurdubooks.com/Sahih-Bukhari/Sahih-Bukhari-.php?hadith_number=6819: ریفرنس 

Wednesday, May 30, 2018

جنسی ہوس پوری کرنے کے بعد مردوں کو زندہ جلا دینے والی ملکہ !


Image result for ‫ملکہ یا اینگولا‬‎

جنسی ہوس پوری کرنے کے بعد مردوں کو زندہ جلا دینے والی ملکہ !۔۔۔۔


تاریخ کی کتابوں میں کئی حیرت انگیز واقعات درج ہیں اور ان میں افریقی ملک انگولا کی ملکہ اینجنگا ایمباندی بھی ہیں جو ایک ہوشیار اور بہادر جنگجو کے طور پر نظر آتی ہیں۔ انھوں نے 17 ویں صدی میں افریقہ میں یورپی استعماریت کے خلاف جنگ کا طبل بجایا تھا لیکن بعض تاریخ نویس انھیں ظالم خاتون کے طور پر بیان کرتے ہیں جنھوں نے اقتدار کے لیے اپنے بھائی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اتنا ہی نہیں ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے حرم میں رہنے والے مردوں کے ساتھ ایک بار جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد انھیں زندہ نذر آتش کروا دیا کرتی تھیں۔ تاہم تاریخ دانوں میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ افریقہ کی سب سے مقبول خواتین میں سے ایک تھیں۔
 ملکہ یا اینگولا !
ایمباندو قبیلے کی رہنما اینجنگا جنوب مغربی افریقی علاقے اینڈونگو اور متامبا کی ملکہ تھیں۔
لیکن مقامی زبان میں کمباندو میں اینڈونگو کو انگولا کہا جاتا تھا اور اسی نام سے پرتگالی اس علاقے کا ذکر کرتے تھے۔ اور بالآخر اس علاقے کو دنیا بھر انگولا کے نام سے ہی جانا گیا۔ اس علاقے کو یہ نام اس وقت دیا گیا جب پرتگال کے فوجیوں نے سونے اور چاندی کی تلاش میں اینڈونگو پر حملہ کر دیا۔
ملکہ اینجنگا ایمباندی نے اپنے بھائی کی موت کے بعد اپنی تاج پوشی کرائی جبکہ ان پر اپنے بھائی کو مارنے کا الزام بھی لگتا ہے۔ لیکن جب انھیں سونے اور چاندی کی کانیں نہیں ملیں تو انھوں نے اپنی نئی کالونی برازیل میں یہاں سے مزدور بھیجنے شروع کر دیے۔
حرم
اینجنگا پرتگالی حملے کے آٹھ سال بعد پیدا ہوئیں اور انھوں نے اپنے والد بادشاہ ایمباندی کیلنجی کے ساتھ بچپن سے ہی حملہ آوروں کے خلاف جدوجہد میں شرکت کی۔
سنہ 1617 میں بادشاہ ایمباندی کی موت کے بعد ان کے بیٹے اینگولا ایمباندی نے حکومت سنبھالی لیکن ان میں نہ اپنے والد کا کرشمہ تھا اور نہ ہی اپنی بہن جیسی ہوشیاری۔
اینگولا ایمباندی کو یہ ڈر ستانے لگا کہ ان کے وفادار ہی ان کے خلاف اور ان کی بہن کے حق میں سازش کر رہے ہیں۔ اور اسی خوف کے سبب اینگولا ایمباندی نے اینجنگا کے بیٹے کو سزائے موت سنا دی۔
لیکن جب نئے بادشاہ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ یورپی حملہ آوروں کا سامنا کرنے میں ناکام ہیں اور یورپی فوج رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہی ہے اور بہت زیادہ جانی نقصان ہو رہا ہے تو ایسے میں انھوں نے اپنے ایک معتمد کا مشورہ مانتے ہوئے اپنی بہن کے ساتھ اقتدار کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔
پرتگالی مشنریوں سے پرتگالی زبان سیکھنے والی اینجنگا بہت ہی با صلاحیت اور جنگی حمکت عملی بنانے والی خاتون تھیں۔ اس صورت حال میں جب وہ مذاکرات کے لیے لوانڈا پہنچیں تو انھوں نے وہاں کالے گورے اور مختلف قبائلیوں کو دیکھا۔
اینجنگا نے ایسا منظر پہلی بار دیکھا تھا تاہم وہ ایک دوسری چیز دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں۔
انھوں نے دیکھا کہ غلاموں کو قطار در قطار بڑے بڑے جہازوں پر لے جایا جا رہا تھا اور چند ہی سالوں میں لوانڈا افریقہ میں غلاموں کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔
لیکن جب وہ پرتگالی گورنر جواؤ كوریے ڈے سوؤسا کے ساتھ امن مذاکرات کرنے ان دفتر پہنچیں تو ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کا ذکر مورخين نے تفصیل سے کیا ہے۔
وہ جب وہاں پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ پرتگالی اہلکار تو آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے تھے جبکہ ان کے لیے زمین پر بیٹھنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔ اس سلوک پر اینجنگا نے ایک لفظ نہیں کہا جبکہ ان کے اشارے پر ان کا ایک ملازم کرسی بن کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
پھر وہ اس ملازم کی پیٹھ پر بیٹھ گئیں اور اس طرح وہ پرتگالی گورنر کے رو برو ان کے برابر پہنچ گئیں۔ اینجنگا نے اس طرح یہ واضح کر دیا کہ وہ مساوی بنیادوں پر مذاکرات کرنے کے لیے آئی ہیں۔
مذاکرات کے طویل دور کے بعد طرفین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پرتگالی فوج اینڈینگو سے نکل جائے گی اور ان کی حاکمیت قبول کرے گی۔ اور اس کے بدلے میں اینجنگا نے اس علاقے کے کاروباری راستے کی تعمیر کے لیے رضامندی دی۔
ملکہ اینجنگا ایمباندی
پرتگال کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے اینجنگا نے مسیحی مذہب اختیار کیا اور اپنا نیا نام اینا ڈی سوزا اختیار کیا۔ اس وقت ان کی عمر 40 سال تھی۔ لیکن دونوں کے درمیان تعلقات زیادہ دنوں تک بہتر نہیں رہے اور پھر نئی جنگ شروع ہو گئی۔ سنہ 1624 میں ان کے بھائی ایک چھوٹے سے جزیرے پر رہنے لگے جہاں ان کی موت واقع ہو گئی جس کے متعلق مختلف قسم کی کہانیاں رائج ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اینجنگا نے اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اپنے بھائی کو زہر دیا۔ جبکہ بعض دوسرے ان کی موت کو خود کشی قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان سب قیاس آرائیوں کے درمیان میں اینجنگا ایمباندے نے پرتگاليوں اور چند اپنے لوگوں کی جانب سے کھڑے ہونے والے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ایندونگو کی پہلی ملکہ بننے کا افتخار حاصل کیا۔ انگولا کی نیشنل لائبریری کے ڈائریکٹر جاؤ پیڈرو لارینکو کا کہنا ہے کہ 'افریقہ میں قدیم زمانے سے جاری خواتین کے استحصال کے خلاف اینجنگا ایمباندے ایک بلند آواز کی طرح ہیں۔'
'انھی کی طرح کئی دوسری شخصیات ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ افریقہ میں اقتدار کے ڈھانچے میں فٹ نہ ہونے کے باوجود ان خواتین نے اس براعظم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔' بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ایک ملکہ کی حیثیت سے اینجنگا کا انداز ظالمانہ تھا۔ مثال کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ان کا ریاست کی سرحد پر رہنے والے امبانگالا جنگجوؤں کی مدد حاصل کرنا تاکہ وہ اپنے حریفوں کو خوفزدہ کر سکیں۔ کئی سالوں تک اپنی سلطنت پر حکومت کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پڑوسی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی سلطنت کی سرحدوں کو بخوبی محفوظ کیا۔
Image result for ‫ملکہ یا اینگولا‬‎
برازیل کے پرتگالی مصنف جوز ایڈوارڈو اگوالوسا کہتے ہیں کہ ملکہ اینجنگا میدان جنگ میں صرف ایک عظیم جنگجو نہیں بلکہ ایک عظیم حکمت عملی بنانے والی اور سیاست داں تھیں۔ انھوں نے پرتگالیوں کے خلاف جنگ کی اور دوسری طرح ڈچ کے ساتھ دوستی کی۔ اور جب ان کی پڑوسی سلطنتوں سے جنگ ہوتی تھی تو وہ پرتگالیوں سے مدد حاصل کرتی تھیں۔
• جنسی غلام کے متعلق کہانی !
فرانسیسی فلسفی مارکس دے سادے نے اطالوی مشنری جیوانی کاویز کی کہانیوں پر مبنی ایک کتاب 'دا فلاسفی آف دا ڈریسنگ ٹیبل' تصنیف کی ہے۔
کاویز کی کہانیوں میں یہ کہا گیا ہے اینجنگا اپنے عاشقوں کے ساتھ سیکس کرنے کے بعد انھیں جلاکر مار دیتی تھیں۔
ملکہ اینجنگا کے حرم کو 'چبدوس' کہا جاتا تھا اور اس میں رہنے والے مردوں کو خواتین کے کپڑے پہنائے جاتے تھے۔
اتنا ہی نہیں جب ملکہ کو اپنے حرم میں موجود کسی مرد کے ساتھ سیکس کرنا ہوتا تھا تو اس کے لیے حرم کے لڑکے مرتے دم تک آپس میں لڑتے اور پھر ان میں جو فاتح ہوتا اس کے ساتھ ملکہ ہم بستری کرتی۔
تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ جیتنے والے کے ساتھ زیادہ خطرناک سلوک ہوتا تھا۔ دراصل ان کے ساتھ سیکس کے بعد انھیں جلا کر مار ڈالا جاتا تھا۔
اس بارے میں دوسرا خیال یہ ہے کہ کاویز کی کہانیاں دوسرے لوگوں کے دعووں پر مبنی ہیں جبکہ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس کے مختلف ورژن موجود ہیں۔
۔۔۔

آپ تھوڑی سی زحمت کیجیئے

Image may contain: 1 person, beard

احبابٍ گرامی آپ تھوڑی سی زحمت کیجیئے
گوگل سرچ میں الیکشن کمیشن کی سائیٹ کھولیں۔
نواز شریف صاحب 'ِعمران خان، زرداری اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے مالی اثاثہ جات کی تفصیلات چیک کریں۔
نواز شریف عمران خان اور زرداری ارب پتی جبکہ مولانا فضل الرحمان کے کل اثاثہ جات صرف 64 لاکھ روپے ھونگے ۔
اس سے بھی کچھ آگے جائیں۔
ہمت کیجیئے۔ دو چار دن مولانا کے پاس گزاریں ۔ پھر دو چار دن نواز شریف کے قریب رہ کر دیکھیں۔ اور ایک آدھ دن عمران خان اورزرداری کی صحبت میں رھیں ۔ آپ پر کچھ ھی دیر میں واضح ھو جائیگا کہ مولانا کا لائف سٹائل ان دونوں کے سامنے ایک مسجد کے مولوی سے زیادہ بڑھ کر نہیں ھو گا ۔ جبکہ خان صاحب اور نواز شریف شہنشاہانہ طرز زندگی کے مالک ھونگے ۔
آپ کچھ اور ہمت کیجیئے ۔ عمران خان صاحب کی اولاد اور نواز شریف صاحب کی اولاد کا موازنہ مولانا صاحب کے بچوں کے ساتھ کیجیئے ۔ مولانا کے بچے آپ کو مدرسے کے طالبعلم اور استاد نظر آئینگے ۔ جن کی تعلیم کسی غریب لوکل مدرسے کی ھو گی ۔ جو دال ساگ کھا کر مدرسے کی چٹائیوں پر سو کر پلے بڑھے ھونگے ۔ جبکہ عمران خان کے بچے لندن میں تعلیم حاصل کر رہے ھونگے ۔ ان کی زندگی یورپین ماحول میں پروان چڑھ رھی ھو گی ۔ ان کا رہن صحن Elite Class جیسا ھو گا ۔ اسی طرح نواز شریف کے بچے خود ارب پتی اور بڑے بزنس مین نظر آئینگے ۔۔۔
Image result for fazlur rehmanآپ تھوڑی سی ہمت اور کیجیئے ۔
ملک کے اندر اور باہر عمران خان اور نواز شریف کی پراپرٹی کا Comparison مولانا فضل الرحمن صاحب کی پراپرٹی سے کریں ۔ آپ کو حیرانگی ھو گی کہ مولانا کا اپنا ذاتی ایک فلیٹ نہ اسلام آباد میں ھے اور نہ لاہور میں ۔ لندن تو دور کی بات ھے ۔۔ جبکہ عمران خان اور نواز شریف کے محلات آپ کو کھلی آنکھوں نظر آئینگے ۔۔
ٹہریئے !

آپ کچھ ہمت اور کیجیٰئے ۔
این آر او کے تحت معاف کیے گے 8 ہزار 5 سو افراد کی فہرست چیک کریں ۔ پاناما میں موجود 450 ناموں کو ایک ایک کر کے پڑھیں ۔ ان میں مولانا سمیت ان کی جماعت کے ایک شخص کا نام آپ کو نہیں ملے گا ۔ تو سب سے بڑا چور کون ھوا مولانا یا وہ افراد اور پارٹیاں جن کے نام پاناما اور این آر او میں ھیں ؟
آپ عدالتوں کا ریکارڈ چیک کیجیئے ۔ عدالتوں کے ریکارڈ کے مطابق نواز شریف اور عمران خان پر مقدمات آپ کو ضرور ملیں گے لیکن مولانا پر کرپشن کا ایک مقدمہ آپ کو عدالتی فائلوں میں سر کھپانے کے بعد بھی نہیں ملے گا ۔
Image result for fazlur rehman

لیکن !
سوال تو بنتا ھے ۔ ان لوگوں سے جو بٍلا تحقیق مولانا فضل الرحمان صاحب پر دن رات کیچڑ اچھالتے رھتے ھیں ۔ جن کے محفل کی رونق اس وقت تک قائم نہیں ھوتی جب تک مولانا فضل الرحمان صاحب پر دو چار طنزیہ جملے نہ کسے جائیں ۔ آپ مولانا کی سیاسی پالیسیز سے ضرور اختلاف کیجیئے لیکن یہ ایک حقیقت ھے کہ مولانا کا دامن صاف و پاک ھے ۔۔۔۔
اس تحریر کو جذباتی وابستگی اور شخصیت پرستی سے تعبیر نہ کریں بلکہ اپنے اندر جستجو و تلاش کی عادت ڈالیں ۔ سنی سنائی باتوں پر عمل نہ کیا کریں اور نقل بھی نہ کیا کریں ۔ Facts تلاش کریں ۔ اپنی سوچ بدلیں ۔
کیا یہ ممکن نہیں ھے کہ آپ کا سوچنے کا انداز غلط ھو ۔ آپ نے جو سنا اور کہا ہے وہ بٍلا دلیل ھو ۔ تو آئیے آج سے حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ھیں ۔ اور کچھ سمجھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرتے ھیں..

Tuesday, May 29, 2018

دنیا کا مہنگا ترین زہر


دنیا کا مہنگا ترین زہر 

Image result for most expensive scorpion venom


جس کی قیمت اربوں روپے میں ہے !

۔۔
دنیا کا سب سے مہنگا زہر بچھوؤں کی ایک قسم ’’لیوریئس کوانکوسٹیریئس‘‘ میں پایا جاتا ہے جسے جان لینے والا بچھو بھی کہتے ہیں۔ اگر ایک بار کوئی اس بچھو کے زہر کا نشانہ بن گیا تو اسے بچانا نہایت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بچھو کا زہر دنیا میں سب سے مہنگا ہے۔


ڈیتھ اسٹاکر کہلانے والے اس خطرناک ترین بچھو کا تعلق بچھوؤں کے خاندان ’’ بوتھائی ڈی‘‘ سے ہے جبکہ اسے اسرائیلی اور فلسطینی بچھو بھی کہا جاتا ہے۔

No automatic alt text available.
یہ دنیا کا سب سے خطرناک بچھو ہے جسے لیوریئس کوانکوسٹیریئس کا نام اس کی دم پر موجود 5 حصوں کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ اس کا رنگ پیلا ہوتا ہے اور یہ 30 سے 77 ملی میٹر تک لمبا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ بچھو شمالی افریقا اور وسطی ایشیا کے ریگستانوں میں پایا جاتا ہے۔
یہ بچھو اپنے قیمتی زہر کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے اور اس کے ایک لیٹر زہر کی قیمت تقریباً 10.5 ملین ڈالر (1 ارب 10 کروڑ 63 لاکھ پاکستانی روپے) ہے۔ یعنی اس کا صرف ایک گیلن تقریباً 5 ارب 35 کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ تاہم خطرناک ہونے کے ساتھ اس بچھو کا زہر بہت کارآمد بھی ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گریوٹز کے مطابق اس زہر کا استعمال بہت سی طبی تحقیقات اور علاج میں کیا جا رہا ہے۔
اس زہر میں کچھ ایسے اجزاء موجود ہوتے ہیں جو درد کش ادویہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ 2013 میں شائع ہونے والی فریڈ ہچنسن کینسر ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بچھو کا زہر کینسر والے خلیوں کو بننے سے روکتا ہے۔
سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ زہر جسمانی اعضا کی محفوظ منتقلی میں بھی معاون ہوتا ہے۔ کئی بار جسم میں اعضا کی پیوند کاری پر انسانی جسم انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
Image result for most expensive scorpion venom
ایسی صورتحال میں اس زہر میں تبدیلی کر کے، بہت ہی معمولی مقدار میں جسم کے اندر داخل کیا جائے گا جس کے بعد یہ سیدھا مدافعتی نظام پر عمل کرے گا اور مصنوعی اعضا مسترد ہونے کا امکان کم ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ یہ زہر ہڈیوں کی بیماریوں میں بھی بہت فائدہ مند ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ انسانی جسم میں ہڈیاں کمزور ہونے لگتی ہیں اور اس طرح کام نہیں کر پاتیں جیسے ایک نوجوان کے جسم میں ہڈیاں کام کرتی ہیں۔
لہٰذا اس زہر کو استعمال کرکے ہڈیوں کے کمزور ہونے کا عمل سست رفتار بنایا جاسکتا ہے۔ 2011 میں کیوبا کے ایک 71 سالہ شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ لیوریئس کوانکوسٹیریئس قسم کے کچھ بچھوؤں سے انہوں نے خود کو کٹوایا تھا۔ جیسے ہی بچھوؤں کا زہر اس کے جسم میں داخل ہوا، اس کے سارے درد غائب ہوگئے۔
ان بچھوؤں کا زہر نکالنے کےلیے لیبارٹری میں انہیں کرنٹ دیاجاتا ہے جس کے باعث بچھوؤں کا زہر ان کے ڈنک میں آجاتا ہے جسے ایک بوتل میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ تاہم یہ عمل بہت پیچیدہ ہے اور ایک وقت میں ایک بچھو کے ڈنک سے صرف ایک بوند زہر نکلتا ہے۔ اس صورت میں ایک لیٹر زہر نکالنے کےلیے تقریباً 1000 سے زائد بچھو درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بچھوؤں کے ایک لیٹر زہر کی قیمت 110 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔
Image result for most expensive scorpion venom
واضح رہے کہ اس زہر کا اثر براہ داست دماغ پر ہوتا ہے اور اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس زہر پر مزید تحقیق جاری ہے۔ دماغ اور اعصاب پر اثر کرنے والے زہروں کو ’’نیورو ٹاکسنز‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو ہلاکت خیز ہونے کے ساتھ ساتھ علاج میں مفید بھی ثابت رہتے ہیں، بشرط یہ کہ انہیں احتیاط سے اور بہت ہی کم مقدار میں استعمال کیا جائے۔
اگر خرابی کے جڑ میں واقعی شفایت کی خصوصیات ہیں اور ان کی فروخت کو فروغ دینے کے لئے ان کی نسل کو فروغ دینا ممکن ہے، اور کم اخراجات میں، مجھے لگتا ہے کہ یہ کرنا چاہئے. میں امید کرتا ہوں کہ سپلائی پر کوئی بھی ایک ہتھیار نہیں ہے یہاں تک کہ اگر یہ منافع کے لئے فروخت کیا جاتا ہے، اور یہ لوگ لوگوں کی ضرورت میں مدد کرسکتے ہیں، اور یہ کہ جانوروں کو نقصان پہنچا بغیر بہتر عمل کیا جا سکتا ہے.

Monday, May 28, 2018

فری میسن تاریخی حقائق کی روشنی میں


فری میسن

Image result for freemasons

تاریخی حقائق کی روشنی میں !
۔۔۔
عصر حاضر میں فری میسنز کی ریشہ دوانیوں اور تحقیقات کی بناء پر بے پردہ ہونے والی ان کی فرعونی تاریخ سے آگاہ ہر باشعور انسان اس راز سے آگاہ ہے کہ تاریخی حقائق کے تناظر میں فری میسن کو پرکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طویل تاریخ میں ایسے افراد کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔ 
جو اپنے شخصی منافع کی تکمیل کی خاطر انسانی اجتماعات اور قوتوں کو استعمال کر کے اپنے سِفلی (شیطانی قوتوں سے حاصل ہونے والے) مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

لہذا اس تناظر میں میں دیکھا جائے تو فری میسن ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک ایسے انسانی مفاد پرستانہ تفکر کا نام ہے جو ہمیشہ سے بعض شیطان صفت انسانوں میں موجود رہا ہے اور یہی وہ تفکر ہے کہ جس کی بنیاد پر ہر دور میں اس طرح کے مزاج کے حامل افراد، حق کی قوتوں کے مقابل کھڑے ہوئے اور انبیا ء کرام علیہم السلام کے مقابلے میں آکر ابلیس کے مددگار قرار پائے ہیں۔
اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ یہودیت کے پائے جانے والے مختلف فرقوں میں سے ایک خبیث فرقے کی ابلیسی مقاصد کی حامل ایک خفیہ عالمگیر تنظیم ’’فری میسن‘‘ کی تاریخ، اس کے تشکیلی مراحل، اس کی اہم شخصیات اور اُن کامختصر تعارف اور اس شیطانی تنظیم کے عقائد، مقاصد اور اہداف کو بھی زیر مطالعہ لا کر اس تنظیم کی ریشہ دوانیوں سے واقف ہوا جائے۔

Image result for freemasons
معنی
فری میسن۔۔۔ دو فرانسیسی الفاظ ’’فرانک‘‘ یعنی آزاد اور ’’میسن‘‘ یعنی مزدور سے تشکیل پایا ہے۔
بعض تحقیقات کے مطابق قرون وسطیٰ میں ’’فرانک‘‘ ان مزدورں کو کہا جاتا تھا جو کسی جبری مزدوری سے معاف تھے، قصہ کچھ یوں ہے کہ کلیسا کی معماری کرنے والے مزدوروں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ بغیر اجرت کے جبری مزدوری سے بچے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے وہ مزدور جن سے کسی اجرت کے بغیر جبری کام لیا جاتا تھا۔ انہوں نے ملک کے اہم ذمہ داروں سے بات چیت اور اصرار کر کے اپنے آپ کو بھی جبری مزدوری سے مستثنیٰ قرار دلوایا اور پھر ان فری میسنز یعنی آزاد مزدوروں نے اپنے درمیان موجود فعال مزدوروں کو فن معماری سکھانے کیلئے کلاسز کا آغاز کر دیا اور اپنے حلقے میں شامل مزدوروں کو اس بات کا پابند کر دیا کہ وہ اس حلقہ سے باہر کسی اور کو اس حلقہ میں داخل ہونے اور اس فن معماری کو سیکھنے کی اجازت نہیں دیں گے تاکہ اس فن کے اسرار و رموز خود ان کے حلقہ کے درمیان ہی باقی رہ سکیں۔
کیمبرج نامی معروف برطانوی لغت نامے کے مطابق ’’فری میسن‘‘ مرد حضرات سے مخصوص ایک خفیہ اور عالمی سطح پر پھیلی ایک ایسی انجمن کا نام ہے جس میں سارے اراکین ایک دوسرے کی مدد کرنے کےساتھ ساتھ باہمی رابطے کیلئے خفیہ زبان استعمال کرتے ہیں۔
تاریخ !
ممکن ہے موجودہ شکل و صورت کی حامل فری میسن نامی یہ تنظیم فقط چند صدیوں کی پیداوار ہو۔ لیکن حقیقت میں شیطان صفت افکار کے حامل افراد نہ صرف طویل تاریخ میں موجود رہے ہیں بلکہ اس دنیا میں جاری خیر و شر کی اس جنگ میں بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ بہرحال دستیاب احوال و شواہد کی بناء پر بات کی جائے تو فری میسن کے عنوان سے معروف یہ عالمی خفیہ تنظیم موجودہ منظم شکل میں چند صدیوں قبل ہی وجود میں آئی ہے۔
یورپ میں کلیسائی جبر و تشدد کے مقابلہ میں اُٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر جس کو ’’عہد رنسانس‘‘ کہا جاتا ہے ،کے آغاز کے ساتھ ہی کلیسا کی حاکمیت کے زوال کے آغاز کے ساتھ ہی چرچ کی تعمیرات کا کام بھی اپنے اختتام تک جا پہنچا اور یوں وہ آزاد مزدور جو ’’ فری میسن‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے بےکار ہوتے چلے گئے۔ بعد میں جیمز اینڈریسن نامی معروف فری میسن رکن اور برطانوی ولی عہد جو Theophilus of Dezgol کے نام سے جانا جاتا تھا، ان کی کوششوں سے ایک بار پھر فری میسن کا احیاء کیا گیا جو بعد میں طبقہ اشرافیہ سے مختص ہو کر رہ گئی۔
Image result for freemasons

دستیاب معلومات کے مطابق فری میسن کی ابتدا 24 جون 1717ءکو برطانیہ میں ہوئی۔ فری میسنری کے آئین کی تشکیل اور منظوری 1723ءکو کی گئی، جس کا خالق مشہور فری میسنری شخصیت ”ڈاکٹر جیمز اینڈرسن“ تھا۔
فری میسنز کی تاریخ نگاری میں ایک اور اہم نام 1742 میں پیدا ہونے والا ’’ولیم پرسٹن‘‘ ہے جس نے ڈاکٹر اینڈرسن کی طرح فری میسنز کی تاریخ نگاری کے ساتھ ساتھ اس کے مناسک و مخصوص عبادات بھی کتابی صورت میں تحریر کی ہیں۔
تیسرا اہم ترین و معروف ترین شخص جس کا شمار فری میسنز کے معتبر و معروف تاریخ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ برطانوی فوج کا سابقہ عہدہ دار ’’رابرٹ فریک گولڈ‘‘ نامی شخص ہے کہ جو جنگ عظیم سے واپسی کے بعد برطانیہ میں فری میسنز کے ایک اہم عہدے دار کے طور پر سامنے آیا۔ اس کو 1880 ءمیں فری میسن کی جانب سے ’’خادم اعظم‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اس نے 1882 ءسے فری میسن کی تاریخ نگاری شروع کی اور 1885ء میں اس کتاب کو نشر کیا۔
آج رابرٹ گولڈ کی لکھی ہوئی تاریخ معتبر ترین تاریخ مانی جاتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ رابرٹ گولڈ اپنے شدید مذہبی تعصب اور خصوصا ًاسلام و عربوں سے متعلق اپنی نفرت کے حوالے سے معروف تھا اور یہی وہ چیز تھی جو فری میسن کے مدنظر تھی۔
1723ء سے لے کر 1750ء کے دوران فری میسن نے انگلینڈ اور اس کے ارد گرد تیزی سے اپنا مقام بنا لیا۔ یہ اس وقت ہوا کہ جب شاہی خاندان، اُمراء، وزرا اور اعلیٰ طبقہ فری میسن سے وابستہ ہوا۔ انگلینڈ میں پہلے گرینڈ لاج کے قیام اور باضابطہ طور پر نئے سرے سے نئے مقاصد و عزائم اور لائحہ عمل کے ساتھ جدید فری میسن کے قیام نے انتہائی پذیرائی حاصل کی اور ماسٹر مائنڈ نے 1730ء میں آئر لینڈ اور 1736ء میں اسکاٹ لینڈ میں گرینڈ لاج قائم کر لیے۔ فری میسنری مورخین کے مطابق 1721ء میں بلجیم اور 1725ء میں فرانس میں لاج قائم کیے گئے۔

فری میسن سے وابستہ ایک اور معروف و تاریخی شخصیت جو درحقیقت فری میسن سے وابستہ ایک جادوگر تھا۔ ناسٹرا ڈیمس (Nostradamus) کی شخصیت ہے۔
فرانس کے ایک علاقے Provence میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے اس شخص نے اس علاقے کے فرانس سے الحاق ہوتے ہی کسی حکمت عملی یا کسی اور انگیزے کے سبب اپنے پورے خاندان کے ساتھ کیتھولک عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔
اس کے اجداد مقامی حکومتوں سے کیے گئے معاہدے کے تحت اس علاقے میں ٹیکس کی وصولی کا کام انجام دیا کرتے تھے۔ ناسٹرا ڈیمس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز طبابت سے کیا ۔
1538ء سے 1547 کے درمیان وہ آسٹریلیا چلا گیا جہاں مقیم یہودی جادوگر اور شیطان پرست فرقہ’’کابالا‘‘ کے ساتھ ملحق ہو گیا۔ فرانس واپس پلٹنے کے بعد ناسٹرا ڈیمس جادوگری، غیب گوئی اور کابالا فرقے کی تبلیغ میں مصروف ہوگیا۔
1550ء میں اس نے باقاعدہ اپنی پیشنگویوں کا آغاز کیا اور معروف ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آخرکار 1555 عیسوی میں اس کی پیشگویوں کی معروف کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب کے اشاعت کےساتھ ہی ناسٹرا ڈیمس پورے فرانس میں مشہور ہو گیا اور اس کی مشہوری کے باعث اس وقت کی فرانس کی ملکہ Catherine de Medicisنے اس کو فرانسیسی دربار کا شاہی مشاور، طبیب اور منجم مقرر کر دیا۔
ملکہ برطانیہ جادوئی علوم اور خفیہ اسرار رموز کی دلدادہ تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے دربار میں ہر وقت جادوگروں اور منجمین کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
اس کے سارے بیٹے بھی ایسے ہی مزاج کے حامل تھے اور جاد و اور خفیہ علوم کے دیوانے تھے۔ اس کا ایک بیٹا جو برطانوی شاہی خاندان میں ’’ہنری سوم‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور برطانیہ کے شاہی خاندان کی تاریخ کے نا اہل ترین شہزادے کے عنوان سے معروف ہے۔
وہ بھی جادوگری، رمل گیری اور خفیہ علوم کا رسیا تھا۔
۔۔۔۔۔

جہنم سے جہنم تک


No automatic alt text available.

جہنم سے جہنم تک


لونڈی جس کا نام راخل تھا
حشر سجا، لائے جا رہے تھے شاہ وِ شہنشاہ، نبی و رسول، سپہ سالار و سورما بیٹھا تھا ربِ زوالجلال مسندِ عدل پر، ہر ایک کے اعمال کے مطابق بدلہ دیتا ہوا۔ کافروں کو جہنم، مجاہدوں کو جنت کی نوید ہو رہی تھی، سرافین ہر فیصلے پر نرسنگے پھونکتے واہ واہ ہوتی، کفار و مشرک چیخ چیخ کر معافیاں مانگتے، مگر انصاف کا تقاضا تھا، قہار اور جبار پروردگار روز محشر کسی کی سننے والا نہیں تھا۔ اس گومگو کیفیت میں اسی درد و دہشت، انصاف و عدل کے میدان میں اک فاحشہ لائی گئی۔ اس کا نام رابعہ تھا۔
ربِ زوالجلال نے سوال کیا ؟ "تو کتنے مردوں کو بہکاتی رہی؟ کتنے مردوں کو بے راہ روی کی جانب مائل کیا، کتنوں کو تم نے جہنم میں پہنچا دیا؟ " وہ کانپ رہی تھی، پسینے سے شرابور، رب چلایا "بول بدکار عورت کیا تیرے گناہ تجھے یاد نہیں؟" وہ پھر بھی خاموش تھی۔ "تو نے اپنا جسم بیچ بیچ کر کتنی دولت کمائی، اپنی حرام کی اولاد کو اپنے ناپاک جسم کی کمائی کھلائی، اپنے بیٹیوں کو فاحشہ بنایا، ان کے جسموں کی کمائی کھائی" وہ پھر بھی خاموش تھی۔ بائیں ہاتھ کے اشارے سے رب نے اسے جہنم واصل کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ وہ چپ چاپ جہنم میں ڈال دی گئی۔ سرافین اس کو بالو سے گھسیٹتے جہنم کی جانب لے جا رہے تھے، اور وہ سوچ رہی تھی، کہ کیسا رب ہے، خود ہی طوائف کے گھر پیدا کیا، اور توقعات سیدزادیوں والی رکھتا ہے۔ سردیوں کے جاڑے میں جس کے پاس تن ڈھانپنے کے کپڑے نہ ہوں وہ شرم و حیا کہاں سے لائے گا، جس کو ایک کُپی تیل اور ایک نوالہ روٹی تبھی ملے جب وہ اپنا جسم بیچے وہ شرافت سے کیسے رہ سکتا ہے۔ جہنم کے بعد ایک اور جہنم، ایک جہنم پیچھے گزری تھی اور ایک آگے تھی، عدل و انصاف کا داعی رب دراصل بے انصاف اور بے رحم تھا۔ "اگر مجھے عورت کے بجائے مرد بنا دیتا تو میں فاحشہ نہ بنتی" زیر لب الفاظ کشائی کو تیار تھے، مگر اس سے پہلے ہی قروبی، اس کو جہنم کے گڑھے میں پھینک چکے تھے، اور وہ گرتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
پھر صحابی لائے گئے، جنتیں بانٹی گئی، جہاد میں سورمائی کے قصے پڑھے گئے، سرافین و قروبین کی واہ واہ، اللہ اکبر کے نعرے، لبیک کی صدائیں، مجاہد مجاہد کے پرجوش ورد، رب کے چہرے پر کبھی مسکان ہوتی تو کبھی مجاہدوں کے ہاتھوں کٹنے والے مشرکین کے لئے آنکھوں میں نفرت۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا رب کفر اور کافروں سے نفرت کرتا ہے۔ وہ مجاہدوں سے پیار کرتا ہے۔ جس مجاہد نے جتنے کافر مارے اس کو اتنی جنتیں ملیں، کسی کو ہزار تو کسی نو سو۔ کوئی فدائی تھا کوئی خودکش اور کوئی قربان ہر ایک کی اپنی اپنی داستان تھی، انعام و عنایت جاری و ساری تھی، موتی کے محل، ہزاروں حوریں، کئی کئی بیویاں، غلمان، شراب طہور اور کیا کیا نہیں عنایت ہوا۔
اسی اثناء میں اک مشرک لونڈی لائی گئی، بنو قریضہ کے انجام پر بننے والی ایک لونڈی، یہودی، کافر، منکرِ اسلام، جو یہود کی شکست کے بعد بھی اسلام نہ لائی۔
"اے راخل تو اسلام کیوں نہ لائی؟" رب اس قدر زور سے غرایا کے اس کا تھوک نکل کر راخل کے منہ پر جا گرا۔
"اے میرے رب، تو نے مجھے اپنی پیاری قوم یہود کی اولاد بنا کر پیدا کیا، میرا باپ ایک لاوی کاہن تھا، وہ عبادت خانے میں قربان گاہ پر تیرے نام کی قربانیاں گزرانا کرتا ، تو نے اسے کوئی بیٹا نہ دیا، اس کی صرف دو بیٹیاں تھی، جو تو نے اسے ادھیڑ عمری میں تب دیں جب وہ اندھا ہونے کے قریب تھا۔ دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو تو نے اسی کی بیوی چھین لی۔ مگر وہ صابر تھا کبھی تیرے نام پر کفر نہیں بکا۔ ہمیشہ ثابت قدم رہا، اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا رہا۔ اس نے کبھی قربانی کے گوشت سے اضافی حصہ نہیں لیا، وہ موحد و مومن تھا اور اس نے اپنی بیٹیوں کو تیرے بندے موسی کی شریعت پر پیدا کیا اور ان سے اسی پر مرنے کا وعدہ لیا"
"مگر وہ میرے رسول محمد پر ایمان نہ لایا" رب بے صبری سے چلایا
"تیری بتائی ہوئی نشانیاں محمد میں پائی نہ گئی" راخل بولی
"تم لوگ اندھے تھے تم نے تورات کو بدل دیا، اسی لئے میں نے قیامت تک اور اس کے بعد تمہارے لئے عذاب تیار کر رکھا ہے" رب طنزاً مسکرایا۔
"کیا تورات ہم نے بدلی تھی، کیا میرے خاندان نے اس کے ابواب اور الفاظ کی سیاہی کو مٹا کر نئے الفاظ کندہ کئے تھے؟ کیا ہم نے اس میں تحریف کی تھی؟ اگر تو رب ہے تو خوب جانتا ہے کہ کس نے اور کب تورات میں تحریف کی تھی، کس نے محمدﷺ کی نشانیاں اس مقدس کتاب سے مٹا کر ہمیں منکر و کافر بنایا۔ مگر تو نے محرفین کا ہاتھ نہ روکا، تو نے ان پر بجلی نہ گرائی، ان کی بستیوں کو زلزلوں سے تباہ نہ کیا، کیوں تو نے آسمان سے کوئی تارا ان پر نہیں گرایا؟ کیوں تو اے ربِ جلیل خاموش رہا۔ اگر تو بروقت اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا تو کیا محرفین بچ پاتے؟ تورات خالص رہتی اور یہود ضرور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آتے۔ اگر تورات میں تحریف نہ ہوتی تو ہم کھجور کی ڈالیاں اٹھائے مدینہ میں رسول اللہﷺ کا استقبال ضرور کرتے، ہم کبھی کافر نہ بنتے۔ مگر تیری آنکھوں کے سامنے تورات میں تحریف ہوئی اور ہم کافر و مشرک بنے۔"
ایک فرشتے نے راخل کے منہ پر طمانچہ مارا، "تو خالق کائنات سے زبان لڑاتی ہے، جو کچھ ہوا اس کی مرضی کے مطابق ہوا، تم یہودی قابل نفرت اور سزا کے قابل ہو"
ابنیاء کی جماعت کے چہروں پر ایک رنگ آ رہا تھا دوسرا جا رہا تھا۔ فرشتے غصے سے تلملاء رہے تھے، مجاہد اس مشرکہ کی جان لینے کے لئے پر تول رہے تھے۔
راخل نے مزید لب کشائی کی " ہم نے اپنی نیک نیتی اور خوشدلی سے اپنے اجداد کے راستے پر چلنا مناسب سمجھا، کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ تورات تیری سچی کتاب ہے، تو قادر مطلق رب ہے، اور تو کبھی بھی اپنے سچے کلام میں تحریف نہیں ہونے دے گا۔ تو ہمیں جان بوجھ کر کبھی نہیں بھٹکائے گا، تو سیدھی راہ دکھاتا ہے گمراہ نہیں کرتا"
قریب کھڑے فرشتے نے کہا "راہ حق مدینہ منورہ میں تیری آنکھوں کے سامنے تھی، تو مسلمانوں کی لونڈی بن کر بھی کافرہ ہی رہی، صوم و صلاۃ تیرے سامنے ہوئی، روزے تیرے سامنے رکھے جاتے، دن رات قرآن پاک کی تلاوت ہوتی مگر تو ایمان نہ لائی"
"جب قرآن پڑھا جاتا تو میں زبور پڑھتی، میں ابراہام، اصحاق اور یعقوب کے خدا کو یاد کرتی، میں اس کی شریعت کو یاد کرتی، میں اپنی قوم کے گناہوں کی معافی مانگتی جن کے باعث یہواہ نے ہمیں غیر قوم کے ہاتھوں اسیر کر دیا" راخل رقت آمیز ہو کر بولی " جب میں میدان جنگ سے لائی گئی، جب میرا مومن باپ میری آنکھوں کے سامنے قتل ہوا، جب میری بہن کا چوغہ میری آنکھوں کے سامنے پھاڑ کر اس کو تپتی ریت پر بے آبرو کیا گیا، وہ نو سالہ بچی، درد سے چلاتی رہی، مگر مجاہد نہیں رکا۔ پھر تین دن بعد وہ ایک گڑھا کھود کر میری معصوم بہن کی بے کفن لاش کو دفنا رہا تھا۔"
دربار الہیٰ میں سناٹا چھا گیا۔
" میں کنواری تھی، جس اللہ کے بندے کو مالِ غنیمت کے طور پر دی گئی، وہ مجھے اپنے خیمے میں لے آیا۔ تین دن سے بھوکی تھی، مگر اس نے میرا لباس اتارا اور مجھ پر سوار ہو گیا، میں درد سے چلائی اس سے رکنے کی منت کی، مگر وہ نہ رکا، جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو میری رانوں کے درمیان خون دیکھ کر میں بے ہوش ہو گئی۔ دوسرے مجاہد اس سے میری مانگ کرنے لگے، بالاخر چالیس چاندی کی اشرفیوں کے بدلے اس نے ایک اور مجاہد کو میرا استعمال کرنے کی اجازت دی، وہ آیا میں درد سے تڑپتی رہی، مگر اب میں چلانا بھی بھول گئی تھی۔ جتنے دن لشکر وہاں خیمہ زن رہا آئے روز نئے نئے مجاہد میرا استعمال کرتے رہے۔ جب لشکر روانہ ہوا تو مجاہد نے اپنے گھوڑے کی کاٹھی کے ساتھ رسی باندھ کر مجھے ساتھ ساتھ چلانا شروع کر دیا۔ چند دن بعد میں مدینے پہنچی۔" راخل نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولی "مدینے آتے ہی نئے مالک کے ہاتھ بیچی گئی، مالک کی بیوی ادھیڑ عمر خاتون تھی، وہ میرے حسن سے جلنے لگی، وہ مجھے دن رات کام میں مصروف رکھتی، رات کو میں مالک کے پاؤں دباتی اور بستر گرم کرتی، میرا مالک مجھ پسند کرتا تھا، اس نے مجھے حکم دیا کہ اگر باہر جاؤں تو چہرے پر پردہ ڈال لیا کروں تا کہ مجھے لونڈی سمجھ کر زد و کوب نہ کیا جائے۔ مگر صحابیِ رسول نے مجھے پردہ کرتے دیکھ لیا، اور مجھے چھڑی سے مارا، اور مجھے آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ صحابی رسول نے میرے مالک کو مجھے پردہ کروانے سے سختی سے منع کر دیا۔ میں بھی باقی لونڈیوں کی طرح مدینے کی گلیوں میں نیم برہنہ پھرنے لگی۔ آتے جاتے نوجواب میرے پستانوں کو گھورتے، کئی بار مجھے ٹٹول لیتے۔ مدینے کا ایک طاقتور شخص اکثر مجھے اپنے ہجرے میں لے جاتا اور مجھ سے لطف اندوز ہوتا۔ جنسی عمل ہمیشہ میرے لئے تکلیف دہ تھا، میں کبھی اس سے لطف اندوز نہیں ہو پائی، ہمیشہ تکلیف ہوتی تھی۔ میرا بڈھا مالک مر گیا، اور میں اس کے جوان بیٹے کی ملکیت بنی مگر اس سے بھی میں کبھی بھی جنسی طور پر آسودہ نہ ہو سکی۔ اسی طرح زندگی گزرتی گئی۔ ایک نوجوان مجھے پسند کرتا تھا" "وہ مجھ سے محبت کرنے لگا، میرے مالک کو میرے دام دے کر خریدنا چاہتا تھا، مگر کبھی اتنے پیسے جٹا نا پایا۔ میں بھی اس سے محبت کرنے لگی، ایک دن مدینے سے بھاگ کھڑے ہوئے، مگر زیادہ دور نہ گئے تھے کے پکڑے گئے۔ میرے مالک اور اس کے ساتھیوں نے میرے محبوب کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کیا اور گھاٹی میں پھینک دیا، اس کی لاش کتے کھاتے رہے، مالک مجھے مدینے واپس لے آیا اور ایک بار پھر بیچ دیا۔ مزید چند سال میں نئے مالک کے بستر کی ذینت بنتی رہی۔ ہر روز اپنے باپ، اپنی بہن اور اپنے محبوب کو یاد کرتی، رو رو کر آنسو بھی سوکھ گئے"
"ہمیشہ بے اولاد رہی، شائد قبل از بلوغت جنسی زیادتی نے مجھے اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، ہر لونڈی اُم ولد بننا چاہتی تھی، مگر میں وہ بھی نہ بن سکی، جب میری جوانی ڈھلی تو میں اپنے مالک کے بچے پالتی، جانوروں کی دیکھ بھال کرتی، کنوئیں سے پانی کے مشکیزے بھر بھر کر لاتی۔ چھت سے گر کر میری ٹانگ ٹوٹ گئی، مالک کے غلام مجھے اٹھا کر گھر لے آئے، رخم میں ذہر پید ہو گیا معالج کے کہنے پر میری ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کئی دن بخار میں تڑپتی رہی رب سے موت کی دعا مانگتی رہی، مگر دعا پوری نہ ہوئی، ابھی سزا باقی تھی۔ اس کے بعد ایک ہاتھ میں لکڑی لے کر دن میں بارہ مشکیزے پانی بھرنا میری زندگی کا معمول تھا۔ اگر نہ کر پاتی تو مار پڑتی۔ بوڑھی ہو گئی تھی، مگر خود پر رحم نہیں آتا تھا۔ رحم ان لڑکیوں پر آتا تھا، جو نئی نئی لونڈیاں بنی تھی، جنہوں نے زندگی گزارنی تھی، میری زندگی تو کٹ چکی تھی۔"
"مدینے کی گلیوں میں سپہ سالار اسلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے آئی تو میری خلاصی ہوئی، میں ساری رات بیچ چوراہے تڑپتی رہی، فجر ہوئی نمازی گزرتے رہے، مگر مجھے کسی نے نہیں اٹھایا، ظہر کی اذان ہوئی تو میری جان نکلی، اور فرشتے مجھے اٹھا لائے، قبر ملی یا نہیں یہ میں نہیں جانتی۔"
"مگر تو کبھی اسلام نہیں لائی" قریب کھڑے فرشتے نے نفرت سے کہا
"ہاں میں کبھی اسلام نہیں لائی" راخل نے پشیمانی سے جواب دیا
"اور تو اپنے مالک کی مرضی کے خلاف ایک اوباش نوجوان کے ساتھ بھاگ گئی، اس کے ساتھ زنا کیا، اگر تو مومنہ بھی ہوتی تو جہنم ہی تیرا مقدر تھی" قرشتے نے بتایا، ساتھ ہی ربِ زوالجلا کی انگلی جہنم کی جانب اٹھی، اور فرشتے راخل کو دبوچنے کو لپکے۔
"میں ضرور جہنم جاؤں گی، مگر اس سے قبل چند الفاظ کہنا چاہتی ہوں" رب نے فرشتوں کو رکنے کا اشارہ کیا۔
"ضرور فاحشہ رابعہ مجھ سے بہتر تھی، وہ غربت کی ماری عورت اپنا جسم اپنی مرضی کے مطابق اپنی مرضی کی قیمت پر بیچ سکتی تھی، مگر میں ایسا کبھی نہ کر سکی۔ میں کسی مرد کی بانہوں میں سکون کی نیند نہ سو سکی، میں محبت نہ کر سکی، میں صاحبِ اولاد نہ ہو سکی، میں ساری زندگی کم خوراکی اور کم خوابی کا شکار رہی۔ میں ایک آلہ تھی، ہوس کی تکمیل کا آلہ، انسان نہ تھی، کیونکہ انسانوں کی آزاد مرضی ہوتی ہے۔ میں عورت بھی نہ تھی کیونکہ عورت کی عزت ہوتی ہے، میں حیوان بھی نہ تھی، کیونکہ انکو لوگ وقت پر چارہ ڈالتے ہیں۔ میں حسرت اور تکلیف کی ایک تصویر تھی، سن بلوغت سے قبل ہی شہوت کا شکار ہوئی۔ مجھ سے کسی مرد نے محبت نہ کی مجھے اولاد نہ ہوئی تو اولاد کی محبت سے بھی محروم رہی، شفیق باپ کی موت آنکھوں کے سامنے ہوئی، مظلوم بہن کی آہیں اور چیخیں سنتی رہی مگر بے بس تھی۔ مگر خدا سب کچھ کر سکتا تھا، خدا قادر مطلق تھا، پر افسوس وہ میرے ساتھ نہیں میرے مخالف تھا، اس کے احکام کے مطابق میں مال غنیمت تھی، میری اوقات دورانِ جہاد لوٹے ہوئے کسی غالیچے یا قالین سے بھی کم تھی، کیونکہ انہیں سنبھال کر رکھا جاتا ہے، مگر لونڈیوں کو شہروں کی گلیوں میں بھٹکنے اور لٹنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عزت یا عزت نفس کیا ہوتی ہے یہ غلاموں اور لونڈیوں سے پوچھا جائے، کیونکہ یہ الفاظ ان کی روحِ حسرت میں شامل ہوتے ہیں۔ آزادی کیا ہوتی ہے اس کی قیمت لونڈی سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ لونڈی اپنی مرضی سے سوتی نہیں، لونڈی اپنی مرضی سے جاگتی نہیں، لونڈی اپنی مرضی سے کھاتی نہیں، لونڈی کو ہفتے میں دو چھٹیاں نہیں ملتی، لونڈی کوعید پر نئے کپڑے نہیں ملتے، لونڈی کی فرہنگ میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر کے الفاظ نہیں ہوتے۔ کیونکہ لونڈی کی کوئی رضا نہیں ہوتی، لونڈی یا غلام انسانوں کے بجائے انسانوں کے خول ہوتے ہیں، جن کو خدا نے مال غنیمت بننے کے لئے پیدا کیا، جن کو مومنین کی لطافت کے لئے مجبور و قید کیا گیا۔ چنگیز خان بھی لونڈیاں اور غلام رکھتا تھا، قیصر و کسریٰ بھی لونڈی اور غلام رکھتے تھے، وہ سبھی جہنمی ہیں، وہ انسانیت کے استحصالی ہیں وہ ظالم ہیں، مگر لشکرِ کفر اور خیمہ ایمان دونوں ہی میں لونڈیاں اور غلام مجبور ہیں۔ جس پر بیتتی ہے وہ جانتا ہے۔ کاش خدا بھی کسی کا غلام ہوتا، کاش نبی بھی کسی لونڈی کی اولاد ہوتے تو جانتے کہ ان کا دکھ کیا ہے۔ لونڈی اور غلام کے لئے موت آزادی ہے۔"
راخل خاموش نہیں ہونا چاہتی تھی، مگر ایک فرشتے نے اس کی زبان کاٹ دی، اور اس کو جہنم کی جانب گھسیٹنے لگا، پھر اک جھٹکے سے اسے جہنم کی جانب اچھال دیا، وہ نیچے گرنے لگی، گرنے کی بے وزن کیفیت ایک انوکھا احساس تھی۔ اس کو اپنا آپ ہلکا اور بے وزن محسوس ہو رہا تھا، آزادی کا اس سے بہتر مطلب اسے کوئی نہیں سمجھا سکتا تھا۔ بوجھ اور وزن سے آزادی۔ جہنم تو وہ تھی جس میں وہ زندگی بھر تھی۔
غالب کمال

اللہ کا دیا کھاتی ہوں


Image may contain: one or more people

اللہ کا دیا کھاتی ہوں 


ایک بادشاہ کی سات بیٹاں تھی ایک دن بادشاہ بہت خوش ہوتا ہے اور اپنی ساتوں بیٹوں کو بلا کر پوچھتا ہے کہ میں تم سب سے ایک سوال پوچھوں گا اور اگر جواب اچھا لگا تو تمہارا من چاہا انعام بھی دوں گا۔
سب ایک قطار میں کھڑی ہو جاو اور ایک ایک کر کے بتاو کہ تم کس کا دیا کھاتی ہو ؟ کس کا دیا پہنتی ہو ؟





سات میں سے چھ بیٹوں نے کہا ابا حضور آپ کا دیا کھاتے ہیں اور آپ کا دیا پہنتے ہیں آپ ہی کی وجہ سے ہماری یہ شان و شوکت ہے یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور سب کو اس کی من پسند چیز دے دی۔ جب سب سے چھوٹی بیٹی کی باری آئی تو اس نے کہا کہ میں اللہ کا دیا کھاتی ہوں اور اپنی قسمت کا پہنتی ہوں اور یہ میرا نصیب ہے۔ بادشاہ یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا اے کمبخت تو نے میری ناشکری کی ہے تجھے اس کی سزا ضرور ملی گئی۔ شہزادی نے کہا جو حکم ابا حضور بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ جاو اسے جنگل میں چھوڑ آو۔
میں بھی دیکھوں کہ یہ میرے بغیر کیسے اللہ کا دیا کھاتی ہے اور اپنے نصیب کا پہنتی ہے شہزادی سے تمام زیورات واپس لے لیے گیے اور خستہ حال کپڑوں میں بغیر کسی ساز و سامان کے بادشاہ کے حکم کے مطابق جنگل میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ لیکن شہزادی بہت پرسکون مطمئن تھی اور توکل اللہ تھی کہ جو اس نے رزق اور عیش و عشرت میرے نصیب لکھی ہے وہ مجھے ضرور ملے گئی۔ سب سپاہی شہزادی کو چھوڑ کر واپس چلے گے ۔
شہزادی جنگل کو دیکھنے لگی چاروں طرف درخت ہی درخت تھے اور دوپہر سے شام ہونی والی تھی کہ شہزادی نے سوچا کیوں نہ کچھ لکڑیاں جمع کر لو تاکہ رات کو آگ جلاو پھر کوئی جنگلی جانور پاس نہیں آئے گا ۔اور رات بھی گزر جائے گی۔ شہزادی جنگل میں لکڑیاں ڈھونڈے چل پڑی ۔اس کی نظر ایک جھونپڑی پر پڑی جہاں باہر ایک بکری بندی ہوئی تھی اور اندر سے کھانسے کی آواز آ رہی تھی پہلے تو شہزادی بہت حیران ہوئی کہ اتنی ویران جگہ پر جھونپڑی ؟ جب وہ جھونپڑی کے اندر داخل ہوتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک بوڑھا ضیعف ایک چارپائی پر لیٹا ہے اور کھانستے ، کھانستے پانی ، پانی پکار کر رہا ہے شہزادی ادھر ُادھر دیکھتی ہے تو کونے میں ایک پانی کا گھڑا پڑا ہوتا ہے وہ گلاس میں پانی بھر کر بوڑھے ضعیف کو پلاتی ہے ۔
Image result for seven daughters
اور جھونپڑی کی صاف صفائی کرتی ہے اتنے میں بوڑھا ضعیف شہزادی سے پوچھتا ہے کہ بیٹی تم کون ہو؟ اور اتنے بڑے جنگل میں تم اکیلی کیا کر رہی ہو ؟ تب شہزادی اسے بتاتی ہے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچی ۔ بوڑھا ضعیف اسے جھونپڑی میں ہی رکنے کا بولتا ہے اور کہتا ہے کہ میں شہر میں کام کرتا ہوں صبح شہر چلا جاؤں گا اور آٹھ دن کے بعد آؤ گا تم یہی رہو اور جھونپڑی میں کھانے کا سامان ہے اور ندی پاس ہی ہے تم وہاں سے گھڑا بھر لیا کرنا ۔ صبح کو بوڑھا ضعیف شہر چلا جاتا یے اور شہزادی یہاں اکیلی جھونپڑی میں سب صفائی کر کے بکری کا دودھ نکلاتی ہے آدھا اپنے لیے رکھ لیتی ہے اور آدھا باہر ایک کونے میں برتن میں ڈال کر رکھ دیتی ہے کہ رات کو کوئی جانور بھوکا یا پیاسا ہو گا توپی لے گا ۔
اور خود اندر آ کر سو جاتی ہے صبح سویرائے جب شہزادی اٹھتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ دودھ کا برتن خالی اور پاس ایک لال پڑا ہے جو دیکھنے میں بہت ہی نایاب اور قیمتی معلوم ہوتا ہے اور پاس ہی سانپ کے نشان بھی نظر آتے ہیں تب شہزادی کو یاد آتا ہے کہ بچپن میں اس نے سنا تھا کہ جب کوئی نایاب سانپ بہت خوش ہوتا ہے تو ایک ایسا لال اگلتا ہے کہ جس کی قیمت ہیرے جواہرات سے بھی مہنگی ہوتی ہے شہزادی بہت حیران ہوتی ہے اور دل میں سوچتی ہے کہ شاید سانپ بھوکا تھا۔ اس لیے وہ دودھ پی کر خوشی میں لال چھوڑ گیا پھر وہ لال اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیتی ہے ۔
اور پھر اگلی رات شہزادی برتن میں دودھ رکھ دیتی ہے اور اگلی صبح جب دیکھتی ہے تو پھر ایک لال ہوتا ہے ایسے ہی کرتے سات دن گزر جاتے ہیں اور شہزادی کے پاس سات لال جمع ہو جاتے ہیں اور اس دن بوڑھا ضعیف بھی آ جاتا ہے تب شہزادی اسے لال دیکھاتی ہے اور سارا واقع بتاتی ہے اور بوڑھے ضعیف کو تین لال دیتی ہے اور کہتی ہے کہ شہر جا کر یہ لال بیچ دو اور آتے وقت اپنے ساتھ محل بنانے والے مزدور لے کر آنا ۔ باقی چار لال شہزادی اپنے گلے میں مالا کے طور پر پہن لیتی ہے اور کچھ ہی مہینوں میں جنگل میں ایک عالی شان محل تیار ہو جاتا ہے۔
جس میں بوڑھا ضعیف اور شہزادی رہنے لگتے ہیں ایسا خوبصورت محل جس میں ہر آرائش نوکر چاکر ، دنیا کی تمام نعمتیں ماجود ہوتی ہے شہزادی جنگل میں لکڑی کے کارخانہ لگا دیتی ہے جس میں غریب کام کرتے ہیں اور ان کے روٹی بھی چلتی رہتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل شہر نما بن جاتا ہے اور دور دور تک دھوم مچ جاتی ہے کہ شہزادی بہت رحم دل ہے۔
یہ خبر ایسے ہی بادشاہ تک پہنچتی ہے تو بادشاہ کے دل میں اشتیاق ہوتا ہے کہ دیکھو تو سہی کون سے ملک کی شہزادی ہے جس کی اتنی تعریف ہے بادشاہ سپاہیوں کے ہاتھ پیغام بھجتا ہے شہزادی سے ملنے یہاں شہزادی کے سپاہی جب شہزادی کو بتاتے ہیں تو شہزادی یہ حکم دیتی ہے کہ بادشاہ سلامت ایک کی شرط پر ہم سے مل سکتے ہیں کہ وہ اپنی تمام بیٹوں کے ساتھ آئے۔ سپاہی جا کر بادشاہ کو پیغام دے دیتے ہیں ۔
ایک دن بادشاہ اپنی تمام بیٹوں کے ساتھ شہزادی کے محل جاتا ہے شہزادی ان سب سے ملتی ہے چہرے پر نقاب کر کے اور ان کے لیے سات رنگ کے کھانے پیش کرتی ہے اور ہر کھانے کے ساتھ اسی رنگ کا جوڑا زیورات پہن کر آتی ہے ۔ محل کی شان و شوکت خوبصورتی اور شہزادی کا انداز بادشاہ اور باقی تمام شہزادیوں کو بہت حیران اور متاثر کرتا ہے آخر میں بادشاہ شہزادی سے کہہ ہی دیتا ہے کہ تم میری بیٹی کی جگہ پر ہو اور میں بھی تمہارے کہنے پر اپنی تمام بیٹوں کے ساتھ آیا ہوں پھر ہم سے یہ پردہ کس لیے بہت اصرار پر شہزادی کہتی ہے ٹھیک ہے میں تیار ہو کر آتی ہوں ۔
سب شہزادیاں آپس میں سرگوشی کرنے لگتی ہے کہ اتنی تو تیار ہے اتنے مہنگے زیورات پہنے ہے اب اور کتنا تیار ہو کر آئی گئی اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دور سے ایک خستہ حال کپڑوں میں کوئی آ رہا ہے اور غور کرنے پر بادشاہ کو یاد آتا ہے کہ یہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ابھی تک زندہ ہے میں تو سوچتا تھا کہ اسے جنگل کے جانور کھا گئے اور جب میں نے اپنے سپاہیوں کو اس کی خبر لینے بھجا تھا تب انہوں نے ہی بتایا تھا کہ وہاں شہزادی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے۔۔ ۔
بادشاہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور کہتا ہے شہزادی کو بلاو میں تمہیں شہزادی سے آزاد کروا کے لے جاو گا چاہے وہ تمہاری قیمت میں میری ساری بادشاہت مانگ لے ۔۔۔۔۔
Image result for seven daughters
یہ سنتے ہی شہزادی بولتی ہے نہیں ابا حضور میں ہی وہی شہزادی ہوں اور میں نا کہتی تھی کہ میں اللہ کا دیا کھاتی اور اپنے نصیب کا پہنتی ہوں بس اسی اللہ نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے کہ آج میں آپ سے بھی زیادہ امیر ہوں پھر شہزادی اپنا تمام حال بیان کرتی ہے کہ وہ اس مقام تک کیسے آئی اور دیکھاتی ہے اپنے گلے کی مالا جس میں ابھی بھی چار لال ماجود ہوتے ہے۔
یہ بات سنتے ہی باقی تمام شہزادیاں دل میں رشک کرنے لگتی ہیں اور سوچتی ہیں کہ اے کاش ہم۔نے بھی تب یہی کہا ہوتا کہ اللہ کا دیا کھاتی ہے اور اپنے نصیب کا پہنتی ہے۔
۔۔۔۔

Sunday, May 27, 2018

بیس گھنٹے کا روزہ

Image result for 20 hrs fasting

بیس گھنٹے کا روزہ



شمالی یورپی ممالک سویڈن، فن لینڈ، ناروے، آئس لینڈ، گرین لینڈ، روس اور کینیڈا کے درمیان میلوں دور بحرمنجمد شمالی (آرکٹک اوشن) کے اندر قطب شمالی (North Pole) واقع ہے۔ یہاں زمین اپنے محور کے گرد گھومتے ہوئے اپنی سطح کو چھوتی ہے۔ قطب شمالی کے نزدیک ترین غیر آباد زمین 700 کلومیٹر دور گرین لینڈ کا جزیرہ کیفے کلوبن ہے اور نزدیک ترین مستقل آبادی کینیڈا کے قصبے آلرٹ کی ہے، جو یہاں سے 817 کلومیٹر دور ہے۔۔۔

قطب شمالی کے اردگرد موجود تمام ممالک میں گرمیوں میں طویل ترین دن اور مختصر ترین راتیں ہوتی ہیں جبکہ سردیوں میں مختصر ترین دن اور طویل ترین راتیں ہوتی ہیں۔ جو علاقے قطب شمالی کے نزدیک ترین واقع ہیں وہاں گرمیوں کے تین چار مہینے سورج غروب نہیں ہوتا اسلئے وہاں رہنے والے مسلمان ترکی یا سعودی عرب کے اوقات کے مطابق سحر اور افطار کرتے ہیں، یا اپنے روزے قضا کر کے نارمل دنوں میں رکھتے ہیں جب دن رات کا دورانیہ نارمل ہو جاتا ہے۔
سویڈن کے دارلحکومت سٹاک ہوم، فن لینڈ کے دارلحکومت ہیلسینکی اور ناروے کے دارلحکومت اوسلو، تینوں بڑے شہروں میں قطب شمالی کے نزدیک ہونے کی وجہ سے آجکل رمضان کے روزے کا دورانیہ بیس گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ رات دو بجے سے شام دس بجے تک کے بیس گھنٹے کے روزے کیبعد بقیہ کم وبیش چار گھنٹوں میں افطاری اور سحری بھی کرنی ہوتی ہے اور مغرب، عشاء، فجر کی نمازیں بھی پڑھنی ہوتیں ہیں، جسکی وجہ سے ان شہروں میں رہنے والے مسلمانوں کی سحر و افطار اور نمازوں کی وجہ سے رات کی نیند پوری نہیں ہوتی ہے۔
Image result for 20 hrs fasting

میرے دفتر میں چار پانچ مسلمانوں کے علاوہ باقی سب غیر مسلم گورے گوریاں کام کرتے ہیں۔ رمضان کی وجہ سے ہم مسلمانوں نے اچانک کھانے پینے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور اپنے اپنے کمروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ ساتھ کام کرنے والی ایک سویڈش خاتون نے آج موقع پا کر ہماری بیچارگی پر اظہار افسوس کر ہی دیا، کہ کیسے ہم بیس بیس گھنٹے بغیر کھائے پئے زندہ رہ لیتے ہیں۔ نثار صاحب (سینئر کولیگ) اس اچانک اور غیر متوقع سوال پر کچھ یوں گویا ہوئے کہ ہمارا روزہ خالی کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے، بلکہ ہماری زبان، آنکھوں، ناک، کان، دماغ، ہاتھ اور پاؤں کا بھی روزہ ہوتا ہے۔

اس مختصر لیکن جامع جواب کی توقع اس گوری کے ساتھ ساتھ مجھے بھی نہیں تھی، لہذا فوراً کمپیوٹر سکرین سے نظریں ہٹا کر اپنی تمام تر توجہ جواب سننے پر مرکوز کردی۔ گوری ساکت آنکھوں سے سب سن رہی تھی، جیسے کچھ انہونی بات ہوگئی ہو۔ نثار صاحب نے کچھ تاسف کے بعد اپنے جواب کی تشریح کچھ یوں کی کہ یہ ایک مہینہ سال کے باقی گیارہ مہینوں کیلئے ایک ٹریننگ ہے جس میں ہمیں اپنے تمام جسم کا ٹیکس دینا ہوتا ہے، جس میں برا دیکھنے، سننے، سوچنے، بولنے، ہاتھوں سے برائی کرنے اور پاؤں سے برائی کی طرف چلنے سے بچنا شامل ہے۔ روزے کے دوران ہمارے منہ سے آنے والی بُو دراصل فالتو چربی اور زہریلے مادوں کے جلنے کی وجہ سے ہے۔ روزے میں نماز کے دوران ہماری روح خالق کائنات کا قرب پا کر خوش ہوتی ہے جس سے ہمیں ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، اور ہمارے گزشتہ کئیے گئے گناہ دھل جاتے ہیں۔ روزے کا اصل مقصد خود بھوکے پیاسے رہ کر غریبوں اور محتاجوں کی بھوک اور پیاس کا نہ صرف احساس کرنا ہے بلکہ انکی مالی امداد بھی کرنا ہے اور اپنے اردگرد رہنے والے دوسرے انسانوں سے حسن اخلاق سے پیش آنا ہوتا ہے۔

گوری یہ جواب سن کر اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے ایک دن روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا، لیکن میں نے یہ سوچتے ہوئے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میں ایک مسلمان ہوتے ہوئے اپنے جسم کی کتنی چیزوں کا روزہ رکھ رہا ہوں۔۔۔؟ کیا میری زبان غیبت اور جھوٹ سے بچی ہوئی ہے؟ کیا میری آنکھیں حرام دیکھنے سے محفوظ ہیں؟ میں حقوق العباد کا کتنا خیال رکھ رہا ہوں؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بات کرنا، فریب کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔”
(طارق محمود، کالم نگار پنجاب پوسٹ لاہور)

درانی ۵۰ ملین ڈالر مین

 درانی ۵۰ ملین ڈالر مین 


آج سے ٹھیک تین سال قبل عثمان درانی اپنی جرمن کمپنی کی طرف سے جنوبی 
بھارت کے شہر کوچی جاتا ہے۔ کام ختم کرنے کے بعد قواعد کی رُو سے اسے واپس کوچی ائیرپورٹ سے فلائی کر کے جرمنی واپس جانا تھا لیکن اس کی فلائیٹ کا روٹ براستہ ممبئی بن گیا۔ پھر اسے ممبئی میں ویزہ کی خلاف ورزی پر گرفتار کر لیا گیا۔ اعلی سطحی رابطے ہوئے، عثمان کا والد بذات خود بھارتی افسران سے رابطہ کرتا ہے اور بالآخر پورا ایک دن حراست میں رہنے کے بعد عثمان کو واپس جرمنی روانہکر دیا جاتا ہے۔



عثمان درانی، پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا بیٹا ہے۔ اس واقعے کے ایک سال بعد اسد درانی سے بھارتی صحافی ادیتیا سنہا رابطہ کرتا ہے اور اسے را کے سابق چیف امرجیت سنگھ دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھنے کی آفر کرتا ہے جو قبول کرلی جاتی ہے۔

پھر اسد درانی، امرجیت دلت اور ادیتیا سنہا جرمنی، ترکی اور نیپال کے شہروں میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں پاکستان اور انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان انٹرویو کے انداز میں صحافی سنہا کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں جسے سپائی کرونکلز کے نام سے کتابی شکل میں ریلیز کر دیا گیا۔



Image result for osman durrani isi
Image result for download button
کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستانی فوج کی طرف سے سخت ردعمل آیا کیونکہ امرجیت کی نسبت اسد درانی نے زیادہ بڑے انکشافات کئے ہیں۔
اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی ہوچکی، مجھے نہیں پتہ کہ اسد درانی اپنی صفائی میں کیا کہتا ہے لیکن پاک فوج کو اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ کہیں عثمان درانی کو کسی لڑکی وغیرہ کے ذریعے پھانس کر اسد درانی کو مجبور تو نہیں کیا گیا تھا؟
عین ممکن ہے کہ برخوردار کی کچھ تصاویر یا ویڈیو کلپس کو استعال کرتے ہوئے اسد درانی کو مجبور کیا گیا ہو کہ وہ کتاب لکھنے میں مدد دے۔
Image result for ‫عثمان درانی‬‎
بہرحال یہ کیس اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حساس عہدوں پر کام کرنے والے افسران کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ نہ تو وہ خود بیرون ممالک میں نوکری یا رہائش اختیار کریں گے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ۔ اگر پاکستان میں اعلی عہدے پر فائز ہونا ہے تو پھر قربانی بھی اعلی دینا ہو گی۔
جہانگیر کرامت سے لے کر مشرف، پرویز کیانی اور راحیل شریف تک، سب کے سب آرمی چیفس باہر کے ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور وہیں ان کے کمرشل مفادات بھی وابستہ ہیں۔
آرمی کے سابق افسران کو واپس بلایا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ سول حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ آئینی عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اور ان کے اہل خانہ کسی بھی صورت بیرون ممالک کاروبار یا رہائش اختیار نہیں رکھیں گے، بصورت دیگر ان پر غداری کے مقدمات درج ہوں گے۔
یہ کڑوا گھونٹ اگر آج نہ بھرا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ عام پریکٹس ہوجائے گی کہ پاکستان میں عہدے سے ریٹائرڈ یا حکومت سے علیحدگی کے بعد غیرملکی ایجنسیوں کو پاکستانی راز بیچنے شروع کردیئے جائیں۔
ملک ایسے نہیں چلتے، ہم نے آج تک کسی کو غداری کے جرم میں پھانسی نہیں دی۔ دو چار سر قلم کرنا ہوں گے تاکہ سب کو سبق حاصل ہو اور آئیندہ محتاط رہیں۔۔!!
۔۔۔۔
وقاص چودھری