جہنم سے جہنم تک
حشر سجا، لائے جا رہے تھے شاہ وِ شہنشاہ، نبی و رسول، سپہ سالار و سورما بیٹھا تھا ربِ زوالجلال مسندِ عدل پر، ہر ایک کے اعمال کے مطابق بدلہ دیتا ہوا۔ کافروں کو جہنم، مجاہدوں کو جنت کی نوید ہو رہی تھی، سرافین ہر فیصلے پر نرسنگے پھونکتے واہ واہ ہوتی، کفار و مشرک چیخ چیخ کر معافیاں مانگتے، مگر انصاف کا تقاضا تھا، قہار اور جبار پروردگار روز محشر کسی کی سننے والا نہیں تھا۔ اس گومگو کیفیت میں اسی درد و دہشت، انصاف و عدل کے میدان میں اک فاحشہ لائی گئی۔ اس کا نام رابعہ تھا۔
ربِ زوالجلال نے سوال کیا ؟ "تو کتنے مردوں کو بہکاتی رہی؟ کتنے مردوں کو بے راہ روی کی جانب مائل کیا، کتنوں کو تم نے جہنم میں پہنچا دیا؟ " وہ کانپ رہی تھی، پسینے سے شرابور، رب چلایا "بول بدکار عورت کیا تیرے گناہ تجھے یاد نہیں؟" وہ پھر بھی خاموش تھی۔ "تو نے اپنا جسم بیچ بیچ کر کتنی دولت کمائی، اپنی حرام کی اولاد کو اپنے ناپاک جسم کی کمائی کھلائی، اپنے بیٹیوں کو فاحشہ بنایا، ان کے جسموں کی کمائی کھائی" وہ پھر بھی خاموش تھی۔ بائیں ہاتھ کے اشارے سے رب نے اسے جہنم واصل کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ وہ چپ چاپ جہنم میں ڈال دی گئی۔ سرافین اس کو بالو سے گھسیٹتے جہنم کی جانب لے جا رہے تھے، اور وہ سوچ رہی تھی، کہ کیسا رب ہے، خود ہی طوائف کے گھر پیدا کیا، اور توقعات سیدزادیوں والی رکھتا ہے۔ سردیوں کے جاڑے میں جس کے پاس تن ڈھانپنے کے کپڑے نہ ہوں وہ شرم و حیا کہاں سے لائے گا، جس کو ایک کُپی تیل اور ایک نوالہ روٹی تبھی ملے جب وہ اپنا جسم بیچے وہ شرافت سے کیسے رہ سکتا ہے۔ جہنم کے بعد ایک اور جہنم، ایک جہنم پیچھے گزری تھی اور ایک آگے تھی، عدل و انصاف کا داعی رب دراصل بے انصاف اور بے رحم تھا۔ "اگر مجھے عورت کے بجائے مرد بنا دیتا تو میں فاحشہ نہ بنتی" زیر لب الفاظ کشائی کو تیار تھے، مگر اس سے پہلے ہی قروبی، اس کو جہنم کے گڑھے میں پھینک چکے تھے، اور وہ گرتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
پھر صحابی لائے گئے، جنتیں بانٹی گئی، جہاد میں سورمائی کے قصے پڑھے گئے، سرافین و قروبین کی واہ واہ، اللہ اکبر کے نعرے، لبیک کی صدائیں، مجاہد مجاہد کے پرجوش ورد، رب کے چہرے پر کبھی مسکان ہوتی تو کبھی مجاہدوں کے ہاتھوں کٹنے والے مشرکین کے لئے آنکھوں میں نفرت۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا رب کفر اور کافروں سے نفرت کرتا ہے۔ وہ مجاہدوں سے پیار کرتا ہے۔ جس مجاہد نے جتنے کافر مارے اس کو اتنی جنتیں ملیں، کسی کو ہزار تو کسی نو سو۔ کوئی فدائی تھا کوئی خودکش اور کوئی قربان ہر ایک کی اپنی اپنی داستان تھی، انعام و عنایت جاری و ساری تھی، موتی کے محل، ہزاروں حوریں، کئی کئی بیویاں، غلمان، شراب طہور اور کیا کیا نہیں عنایت ہوا۔
اسی اثناء میں اک مشرک لونڈی لائی گئی، بنو قریضہ کے انجام پر بننے والی ایک لونڈی، یہودی، کافر، منکرِ اسلام، جو یہود کی شکست کے بعد بھی اسلام نہ لائی۔
"اے راخل تو اسلام کیوں نہ لائی؟" رب اس قدر زور سے غرایا کے اس کا تھوک نکل کر راخل کے منہ پر جا گرا۔
"اے میرے رب، تو نے مجھے اپنی پیاری قوم یہود کی اولاد بنا کر پیدا کیا، میرا باپ ایک لاوی کاہن تھا، وہ عبادت خانے میں قربان گاہ پر تیرے نام کی قربانیاں گزرانا کرتا ، تو نے اسے کوئی بیٹا نہ دیا، اس کی صرف دو بیٹیاں تھی، جو تو نے اسے ادھیڑ عمری میں تب دیں جب وہ اندھا ہونے کے قریب تھا۔ دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو تو نے اسی کی بیوی چھین لی۔ مگر وہ صابر تھا کبھی تیرے نام پر کفر نہیں بکا۔ ہمیشہ ثابت قدم رہا، اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا رہا۔ اس نے کبھی قربانی کے گوشت سے اضافی حصہ نہیں لیا، وہ موحد و مومن تھا اور اس نے اپنی بیٹیوں کو تیرے بندے موسی کی شریعت پر پیدا کیا اور ان سے اسی پر مرنے کا وعدہ لیا"
"مگر وہ میرے رسول محمد پر ایمان نہ لایا" رب بے صبری سے چلایا
"تیری بتائی ہوئی نشانیاں محمد میں پائی نہ گئی" راخل بولی
"تم لوگ اندھے تھے تم نے تورات کو بدل دیا، اسی لئے میں نے قیامت تک اور اس کے بعد تمہارے لئے عذاب تیار کر رکھا ہے" رب طنزاً مسکرایا۔
"کیا تورات ہم نے بدلی تھی، کیا میرے خاندان نے اس کے ابواب اور الفاظ کی سیاہی کو مٹا کر نئے الفاظ کندہ کئے تھے؟ کیا ہم نے اس میں تحریف کی تھی؟ اگر تو رب ہے تو خوب جانتا ہے کہ کس نے اور کب تورات میں تحریف کی تھی، کس نے محمدﷺ کی نشانیاں اس مقدس کتاب سے مٹا کر ہمیں منکر و کافر بنایا۔ مگر تو نے محرفین کا ہاتھ نہ روکا، تو نے ان پر بجلی نہ گرائی، ان کی بستیوں کو زلزلوں سے تباہ نہ کیا، کیوں تو نے آسمان سے کوئی تارا ان پر نہیں گرایا؟ کیوں تو اے ربِ جلیل خاموش رہا۔ اگر تو بروقت اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا تو کیا محرفین بچ پاتے؟ تورات خالص رہتی اور یہود ضرور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آتے۔ اگر تورات میں تحریف نہ ہوتی تو ہم کھجور کی ڈالیاں اٹھائے مدینہ میں رسول اللہﷺ کا استقبال ضرور کرتے، ہم کبھی کافر نہ بنتے۔ مگر تیری آنکھوں کے سامنے تورات میں تحریف ہوئی اور ہم کافر و مشرک بنے۔"
ایک فرشتے نے راخل کے منہ پر طمانچہ مارا، "تو خالق کائنات سے زبان لڑاتی ہے، جو کچھ ہوا اس کی مرضی کے مطابق ہوا، تم یہودی قابل نفرت اور سزا کے قابل ہو"
ابنیاء کی جماعت کے چہروں پر ایک رنگ آ رہا تھا دوسرا جا رہا تھا۔ فرشتے غصے سے تلملاء رہے تھے، مجاہد اس مشرکہ کی جان لینے کے لئے پر تول رہے تھے۔
راخل نے مزید لب کشائی کی " ہم نے اپنی نیک نیتی اور خوشدلی سے اپنے اجداد کے راستے پر چلنا مناسب سمجھا، کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ تورات تیری سچی کتاب ہے، تو قادر مطلق رب ہے، اور تو کبھی بھی اپنے سچے کلام میں تحریف نہیں ہونے دے گا۔ تو ہمیں جان بوجھ کر کبھی نہیں بھٹکائے گا، تو سیدھی راہ دکھاتا ہے گمراہ نہیں کرتا"
قریب کھڑے فرشتے نے کہا "راہ حق مدینہ منورہ میں تیری آنکھوں کے سامنے تھی، تو مسلمانوں کی لونڈی بن کر بھی کافرہ ہی رہی، صوم و صلاۃ تیرے سامنے ہوئی، روزے تیرے سامنے رکھے جاتے، دن رات قرآن پاک کی تلاوت ہوتی مگر تو ایمان نہ لائی"
"جب قرآن پڑھا جاتا تو میں زبور پڑھتی، میں ابراہام، اصحاق اور یعقوب کے خدا کو یاد کرتی، میں اس کی شریعت کو یاد کرتی، میں اپنی قوم کے گناہوں کی معافی مانگتی جن کے باعث یہواہ نے ہمیں غیر قوم کے ہاتھوں اسیر کر دیا" راخل رقت آمیز ہو کر بولی " جب میں میدان جنگ سے لائی گئی، جب میرا مومن باپ میری آنکھوں کے سامنے قتل ہوا، جب میری بہن کا چوغہ میری آنکھوں کے سامنے پھاڑ کر اس کو تپتی ریت پر بے آبرو کیا گیا، وہ نو سالہ بچی، درد سے چلاتی رہی، مگر مجاہد نہیں رکا۔ پھر تین دن بعد وہ ایک گڑھا کھود کر میری معصوم بہن کی بے کفن لاش کو دفنا رہا تھا۔"
دربار الہیٰ میں سناٹا چھا گیا۔
" میں کنواری تھی، جس اللہ کے بندے کو مالِ غنیمت کے طور پر دی گئی، وہ مجھے اپنے خیمے میں لے آیا۔ تین دن سے بھوکی تھی، مگر اس نے میرا لباس اتارا اور مجھ پر سوار ہو گیا، میں درد سے چلائی اس سے رکنے کی منت کی، مگر وہ نہ رکا، جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو میری رانوں کے درمیان خون دیکھ کر میں بے ہوش ہو گئی۔ دوسرے مجاہد اس سے میری مانگ کرنے لگے، بالاخر چالیس چاندی کی اشرفیوں کے بدلے اس نے ایک اور مجاہد کو میرا استعمال کرنے کی اجازت دی، وہ آیا میں درد سے تڑپتی رہی، مگر اب میں چلانا بھی بھول گئی تھی۔ جتنے دن لشکر وہاں خیمہ زن رہا آئے روز نئے نئے مجاہد میرا استعمال کرتے رہے۔ جب لشکر روانہ ہوا تو مجاہد نے اپنے گھوڑے کی کاٹھی کے ساتھ رسی باندھ کر مجھے ساتھ ساتھ چلانا شروع کر دیا۔ چند دن بعد میں مدینے پہنچی۔" راخل نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولی "مدینے آتے ہی نئے مالک کے ہاتھ بیچی گئی، مالک کی بیوی ادھیڑ عمر خاتون تھی، وہ میرے حسن سے جلنے لگی، وہ مجھے دن رات کام میں مصروف رکھتی، رات کو میں مالک کے پاؤں دباتی اور بستر گرم کرتی، میرا مالک مجھ پسند کرتا تھا، اس نے مجھے حکم دیا کہ اگر باہر جاؤں تو چہرے پر پردہ ڈال لیا کروں تا کہ مجھے لونڈی سمجھ کر زد و کوب نہ کیا جائے۔ مگر صحابیِ رسول نے مجھے پردہ کرتے دیکھ لیا، اور مجھے چھڑی سے مارا، اور مجھے آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ صحابی رسول نے میرے مالک کو مجھے پردہ کروانے سے سختی سے منع کر دیا۔ میں بھی باقی لونڈیوں کی طرح مدینے کی گلیوں میں نیم برہنہ پھرنے لگی۔ آتے جاتے نوجواب میرے پستانوں کو گھورتے، کئی بار مجھے ٹٹول لیتے۔ مدینے کا ایک طاقتور شخص اکثر مجھے اپنے ہجرے میں لے جاتا اور مجھ سے لطف اندوز ہوتا۔ جنسی عمل ہمیشہ میرے لئے تکلیف دہ تھا، میں کبھی اس سے لطف اندوز نہیں ہو پائی، ہمیشہ تکلیف ہوتی تھی۔ میرا بڈھا مالک مر گیا، اور میں اس کے جوان بیٹے کی ملکیت بنی مگر اس سے بھی میں کبھی بھی جنسی طور پر آسودہ نہ ہو سکی۔ اسی طرح زندگی گزرتی گئی۔ ایک نوجوان مجھے پسند کرتا تھا" "وہ مجھ سے محبت کرنے لگا، میرے مالک کو میرے دام دے کر خریدنا چاہتا تھا، مگر کبھی اتنے پیسے جٹا نا پایا۔ میں بھی اس سے محبت کرنے لگی، ایک دن مدینے سے بھاگ کھڑے ہوئے، مگر زیادہ دور نہ گئے تھے کے پکڑے گئے۔ میرے مالک اور اس کے ساتھیوں نے میرے محبوب کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کیا اور گھاٹی میں پھینک دیا، اس کی لاش کتے کھاتے رہے، مالک مجھے مدینے واپس لے آیا اور ایک بار پھر بیچ دیا۔ مزید چند سال میں نئے مالک کے بستر کی ذینت بنتی رہی۔ ہر روز اپنے باپ، اپنی بہن اور اپنے محبوب کو یاد کرتی، رو رو کر آنسو بھی سوکھ گئے"
"ہمیشہ بے اولاد رہی، شائد قبل از بلوغت جنسی زیادتی نے مجھے اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، ہر لونڈی اُم ولد بننا چاہتی تھی، مگر میں وہ بھی نہ بن سکی، جب میری جوانی ڈھلی تو میں اپنے مالک کے بچے پالتی، جانوروں کی دیکھ بھال کرتی، کنوئیں سے پانی کے مشکیزے بھر بھر کر لاتی۔ چھت سے گر کر میری ٹانگ ٹوٹ گئی، مالک کے غلام مجھے اٹھا کر گھر لے آئے، رخم میں ذہر پید ہو گیا معالج کے کہنے پر میری ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کئی دن بخار میں تڑپتی رہی رب سے موت کی دعا مانگتی رہی، مگر دعا پوری نہ ہوئی، ابھی سزا باقی تھی۔ اس کے بعد ایک ہاتھ میں لکڑی لے کر دن میں بارہ مشکیزے پانی بھرنا میری زندگی کا معمول تھا۔ اگر نہ کر پاتی تو مار پڑتی۔ بوڑھی ہو گئی تھی، مگر خود پر رحم نہیں آتا تھا۔ رحم ان لڑکیوں پر آتا تھا، جو نئی نئی لونڈیاں بنی تھی، جنہوں نے زندگی گزارنی تھی، میری زندگی تو کٹ چکی تھی۔"
"مدینے کی گلیوں میں سپہ سالار اسلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے آئی تو میری خلاصی ہوئی، میں ساری رات بیچ چوراہے تڑپتی رہی، فجر ہوئی نمازی گزرتے رہے، مگر مجھے کسی نے نہیں اٹھایا، ظہر کی اذان ہوئی تو میری جان نکلی، اور فرشتے مجھے اٹھا لائے، قبر ملی یا نہیں یہ میں نہیں جانتی۔"
"مگر تو کبھی اسلام نہیں لائی" قریب کھڑے فرشتے نے نفرت سے کہا
"ہاں میں کبھی اسلام نہیں لائی" راخل نے پشیمانی سے جواب دیا
"اور تو اپنے مالک کی مرضی کے خلاف ایک اوباش نوجوان کے ساتھ بھاگ گئی، اس کے ساتھ زنا کیا، اگر تو مومنہ بھی ہوتی تو جہنم ہی تیرا مقدر تھی" قرشتے نے بتایا، ساتھ ہی ربِ زوالجلا کی انگلی جہنم کی جانب اٹھی، اور فرشتے راخل کو دبوچنے کو لپکے۔
"میں ضرور جہنم جاؤں گی، مگر اس سے قبل چند الفاظ کہنا چاہتی ہوں" رب نے فرشتوں کو رکنے کا اشارہ کیا۔
"ضرور فاحشہ رابعہ مجھ سے بہتر تھی، وہ غربت کی ماری عورت اپنا جسم اپنی مرضی کے مطابق اپنی مرضی کی قیمت پر بیچ سکتی تھی، مگر میں ایسا کبھی نہ کر سکی۔ میں کسی مرد کی بانہوں میں سکون کی نیند نہ سو سکی، میں محبت نہ کر سکی، میں صاحبِ اولاد نہ ہو سکی، میں ساری زندگی کم خوراکی اور کم خوابی کا شکار رہی۔ میں ایک آلہ تھی، ہوس کی تکمیل کا آلہ، انسان نہ تھی، کیونکہ انسانوں کی آزاد مرضی ہوتی ہے۔ میں عورت بھی نہ تھی کیونکہ عورت کی عزت ہوتی ہے، میں حیوان بھی نہ تھی، کیونکہ انکو لوگ وقت پر چارہ ڈالتے ہیں۔ میں حسرت اور تکلیف کی ایک تصویر تھی، سن بلوغت سے قبل ہی شہوت کا شکار ہوئی۔ مجھ سے کسی مرد نے محبت نہ کی مجھے اولاد نہ ہوئی تو اولاد کی محبت سے بھی محروم رہی، شفیق باپ کی موت آنکھوں کے سامنے ہوئی، مظلوم بہن کی آہیں اور چیخیں سنتی رہی مگر بے بس تھی۔ مگر خدا سب کچھ کر سکتا تھا، خدا قادر مطلق تھا، پر افسوس وہ میرے ساتھ نہیں میرے مخالف تھا، اس کے احکام کے مطابق میں مال غنیمت تھی، میری اوقات دورانِ جہاد لوٹے ہوئے کسی غالیچے یا قالین سے بھی کم تھی، کیونکہ انہیں سنبھال کر رکھا جاتا ہے، مگر لونڈیوں کو شہروں کی گلیوں میں بھٹکنے اور لٹنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عزت یا عزت نفس کیا ہوتی ہے یہ غلاموں اور لونڈیوں سے پوچھا جائے، کیونکہ یہ الفاظ ان کی روحِ حسرت میں شامل ہوتے ہیں۔ آزادی کیا ہوتی ہے اس کی قیمت لونڈی سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ لونڈی اپنی مرضی سے سوتی نہیں، لونڈی اپنی مرضی سے جاگتی نہیں، لونڈی اپنی مرضی سے کھاتی نہیں، لونڈی کو ہفتے میں دو چھٹیاں نہیں ملتی، لونڈی کوعید پر نئے کپڑے نہیں ملتے، لونڈی کی فرہنگ میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر کے الفاظ نہیں ہوتے۔ کیونکہ لونڈی کی کوئی رضا نہیں ہوتی، لونڈی یا غلام انسانوں کے بجائے انسانوں کے خول ہوتے ہیں، جن کو خدا نے مال غنیمت بننے کے لئے پیدا کیا، جن کو مومنین کی لطافت کے لئے مجبور و قید کیا گیا۔ چنگیز خان بھی لونڈیاں اور غلام رکھتا تھا، قیصر و کسریٰ بھی لونڈی اور غلام رکھتے تھے، وہ سبھی جہنمی ہیں، وہ انسانیت کے استحصالی ہیں وہ ظالم ہیں، مگر لشکرِ کفر اور خیمہ ایمان دونوں ہی میں لونڈیاں اور غلام مجبور ہیں۔ جس پر بیتتی ہے وہ جانتا ہے۔ کاش خدا بھی کسی کا غلام ہوتا، کاش نبی بھی کسی لونڈی کی اولاد ہوتے تو جانتے کہ ان کا دکھ کیا ہے۔ لونڈی اور غلام کے لئے موت آزادی ہے۔"
راخل خاموش نہیں ہونا چاہتی تھی، مگر ایک فرشتے نے اس کی زبان کاٹ دی، اور اس کو جہنم کی جانب گھسیٹنے لگا، پھر اک جھٹکے سے اسے جہنم کی جانب اچھال دیا، وہ نیچے گرنے لگی، گرنے کی بے وزن کیفیت ایک انوکھا احساس تھی۔ اس کو اپنا آپ ہلکا اور بے وزن محسوس ہو رہا تھا، آزادی کا اس سے بہتر مطلب اسے کوئی نہیں سمجھا سکتا تھا۔ بوجھ اور وزن سے آزادی۔ جہنم تو وہ تھی جس میں وہ زندگی بھر تھی۔
غالب کمال
No comments:
Post a Comment