Sunday, May 27, 2018

بیس گھنٹے کا روزہ

Image result for 20 hrs fasting

بیس گھنٹے کا روزہ



شمالی یورپی ممالک سویڈن، فن لینڈ، ناروے، آئس لینڈ، گرین لینڈ، روس اور کینیڈا کے درمیان میلوں دور بحرمنجمد شمالی (آرکٹک اوشن) کے اندر قطب شمالی (North Pole) واقع ہے۔ یہاں زمین اپنے محور کے گرد گھومتے ہوئے اپنی سطح کو چھوتی ہے۔ قطب شمالی کے نزدیک ترین غیر آباد زمین 700 کلومیٹر دور گرین لینڈ کا جزیرہ کیفے کلوبن ہے اور نزدیک ترین مستقل آبادی کینیڈا کے قصبے آلرٹ کی ہے، جو یہاں سے 817 کلومیٹر دور ہے۔۔۔

قطب شمالی کے اردگرد موجود تمام ممالک میں گرمیوں میں طویل ترین دن اور مختصر ترین راتیں ہوتی ہیں جبکہ سردیوں میں مختصر ترین دن اور طویل ترین راتیں ہوتی ہیں۔ جو علاقے قطب شمالی کے نزدیک ترین واقع ہیں وہاں گرمیوں کے تین چار مہینے سورج غروب نہیں ہوتا اسلئے وہاں رہنے والے مسلمان ترکی یا سعودی عرب کے اوقات کے مطابق سحر اور افطار کرتے ہیں، یا اپنے روزے قضا کر کے نارمل دنوں میں رکھتے ہیں جب دن رات کا دورانیہ نارمل ہو جاتا ہے۔
سویڈن کے دارلحکومت سٹاک ہوم، فن لینڈ کے دارلحکومت ہیلسینکی اور ناروے کے دارلحکومت اوسلو، تینوں بڑے شہروں میں قطب شمالی کے نزدیک ہونے کی وجہ سے آجکل رمضان کے روزے کا دورانیہ بیس گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ رات دو بجے سے شام دس بجے تک کے بیس گھنٹے کے روزے کیبعد بقیہ کم وبیش چار گھنٹوں میں افطاری اور سحری بھی کرنی ہوتی ہے اور مغرب، عشاء، فجر کی نمازیں بھی پڑھنی ہوتیں ہیں، جسکی وجہ سے ان شہروں میں رہنے والے مسلمانوں کی سحر و افطار اور نمازوں کی وجہ سے رات کی نیند پوری نہیں ہوتی ہے۔
Image result for 20 hrs fasting

میرے دفتر میں چار پانچ مسلمانوں کے علاوہ باقی سب غیر مسلم گورے گوریاں کام کرتے ہیں۔ رمضان کی وجہ سے ہم مسلمانوں نے اچانک کھانے پینے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور اپنے اپنے کمروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ ساتھ کام کرنے والی ایک سویڈش خاتون نے آج موقع پا کر ہماری بیچارگی پر اظہار افسوس کر ہی دیا، کہ کیسے ہم بیس بیس گھنٹے بغیر کھائے پئے زندہ رہ لیتے ہیں۔ نثار صاحب (سینئر کولیگ) اس اچانک اور غیر متوقع سوال پر کچھ یوں گویا ہوئے کہ ہمارا روزہ خالی کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے، بلکہ ہماری زبان، آنکھوں، ناک، کان، دماغ، ہاتھ اور پاؤں کا بھی روزہ ہوتا ہے۔

اس مختصر لیکن جامع جواب کی توقع اس گوری کے ساتھ ساتھ مجھے بھی نہیں تھی، لہذا فوراً کمپیوٹر سکرین سے نظریں ہٹا کر اپنی تمام تر توجہ جواب سننے پر مرکوز کردی۔ گوری ساکت آنکھوں سے سب سن رہی تھی، جیسے کچھ انہونی بات ہوگئی ہو۔ نثار صاحب نے کچھ تاسف کے بعد اپنے جواب کی تشریح کچھ یوں کی کہ یہ ایک مہینہ سال کے باقی گیارہ مہینوں کیلئے ایک ٹریننگ ہے جس میں ہمیں اپنے تمام جسم کا ٹیکس دینا ہوتا ہے، جس میں برا دیکھنے، سننے، سوچنے، بولنے، ہاتھوں سے برائی کرنے اور پاؤں سے برائی کی طرف چلنے سے بچنا شامل ہے۔ روزے کے دوران ہمارے منہ سے آنے والی بُو دراصل فالتو چربی اور زہریلے مادوں کے جلنے کی وجہ سے ہے۔ روزے میں نماز کے دوران ہماری روح خالق کائنات کا قرب پا کر خوش ہوتی ہے جس سے ہمیں ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، اور ہمارے گزشتہ کئیے گئے گناہ دھل جاتے ہیں۔ روزے کا اصل مقصد خود بھوکے پیاسے رہ کر غریبوں اور محتاجوں کی بھوک اور پیاس کا نہ صرف احساس کرنا ہے بلکہ انکی مالی امداد بھی کرنا ہے اور اپنے اردگرد رہنے والے دوسرے انسانوں سے حسن اخلاق سے پیش آنا ہوتا ہے۔

گوری یہ جواب سن کر اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے ایک دن روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا، لیکن میں نے یہ سوچتے ہوئے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میں ایک مسلمان ہوتے ہوئے اپنے جسم کی کتنی چیزوں کا روزہ رکھ رہا ہوں۔۔۔؟ کیا میری زبان غیبت اور جھوٹ سے بچی ہوئی ہے؟ کیا میری آنکھیں حرام دیکھنے سے محفوظ ہیں؟ میں حقوق العباد کا کتنا خیال رکھ رہا ہوں؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بات کرنا، فریب کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔”
(طارق محمود، کالم نگار پنجاب پوسٹ لاہور)

No comments:

Post a Comment