Friday, May 25, 2018

سازشیں کرنے والوں کا انجام


سازشیں کرنے والوں کا انجام 

یہ عبرت کی جا ہے، تماشہ نہیں ھے !
۔۔۔۔
ٹیپو سلطان کی ریاست میسور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی نظر کافی عرصے سے تھی لیکن وہ اسے فتح کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر انگریزوں نے مراٹھوں، حیدرآباد کے نظاموں، کئی دوسری ریاستوں کے راجاؤں اور نوابوں کو ساتھ ملایا۔ ٹیپو سلطان کی ٹیم سے میر صادق جیسے غداروں کو ساتھ ملایا اور بالآخر ٹیپو سلطان کی فصیل عبور کر کے اسے دھوکے سے شہید کر کے میسور فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم ٹیپو سلطان کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کے ساتھ قدرت نے کیا کیا، یہ بھی بہت دلچسپ داستان ہے۔ غدار میر صادق کو ٹیپو سلطان کے وفاداروں نے قتل کر کے اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی جہاں کئی دن تک اسے کیڑے کھاتے رہے۔ میسور فتح کرنے کا ماسٹر مائینڈ جیمز کرک پیٹرک نامی شخص تھا جس نے ٹیپو سلطان کے خلاف انگریز اور حیدرآباد کے نظام کا اتحاد قائم کرنے میں مدد دی۔ جیمز کو پہلے تو جلدی بیماری نے آن لیا اور پھر جگر کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ جگر کی دوا کھاتا تو جلد کی بیماری بڑھ جاتی، جلد کی دوائی کھاتا تو جگر جلنے لگتا۔ بالآخر وہ اپنے رشتے داروں سے دور کلکتہ کے ایک کیمپ میں ہیپاٹئٹس سے بلک بلک کر مر گیا۔
Image may contain: 2 people

حیدرآباد کے حاکم نظام علی خان پر بھی ٹیپو سلطان کی شہادت کے فوراً بعد فالج کا اٹیک ہو گیا جو اتنا شدید تھا کہ ایسے لگتا تھا کہ کسی نے جادو سے اسے ساکت کر دیا ہو۔ اسی فالج کے ہاتھوں وہ دردناک موت مرا۔
نظام علی خان کا شاطر وزیر، میر عالم تھا جو اسے ساری چالیں بتایا کرتا تھا، اسے بھی ایک موذی جلد کی بیماری نے آن لیا جو اتنی خطرناک تھی کہ جو کوئی بھی اس کے نزدیک جاتا، اسے بھی لگ جاتی۔
چنانچہ میر عالم کو شہر سے باہر کسی کھنڈر میں بھیج دیا گیا جہاں اس کے کھنڈر سے سو میٹر دور کھانا رکھ دیا جاتا۔ یوں میرعالم نے بھی اپنی فیملی سے دور ایک کھنڈر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دی۔
Image may contain: 1 person

میسور فتح کرنے کے بعد مراٹھاؤں کی آپس میں ناچاقی شروع ہوگئی، ہنگامے پھوٹ پڑے، فساد شروع ہو گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کے گلے تلواروں سے کاٹنا شروع کر دیئے۔ پونا نامی مراٹھاؤں کا ایک اہم ٹاؤن ہوا کرتا تھا جسے دنوں میں جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔
مراٹھا سردار جسونت راؤ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا اور خطرناک پاگل پن کے دورے پڑنے لگے۔ چنانچہ اسے لوہے کی موٹی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور دن میں ایک مرتبہ صرف آدھ پاؤ دودھ ہی پینے کو دیا جاتا۔ پاگل پن اور لاغر پن کی وجہ سے وہ چند دنوں میں سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا اور زنجیروں میں بندھے اپنے انجام کو پہنچا۔
Image may contain: 1 person
ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کارن والیس کو ٹیپو سلطان کی شہادت کے فوری بعد پیچش کا شدید مرض لاحق ہوا جو آگے چل کر بڑی آنت کا کینسر بن گیا۔ پاخانہ کرتے وقت لارڈ والس اتنی بھیانک چیخیں مارتا کہ جو کوئی بھی سن لیتا، وہ نفسیاتی مریض بن جاتا۔ جب وہ مرا تو اس کا جسم اپنی ہی گندگی میں لتھڑا ہوا تھا۔
Image may contain: 1 person, standing

گورنر جنرل مارکس ویلزلے بھی زلت آمیر موت مرا۔ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا اور وہ پورے دس دن تک بغیر کچھ کھائے پئے بستر پر لیٹا رہا اور اسی حالت میں جان دے دی۔ مرنے سے چند دن پہلے اس نے کانپتے ہاتھوں سے ایک تحریر لکھی جو کچھ یوں تھی:
" پچھلے چند دنوں کے اندر اندر میں ایک صحت مند انسان سے ایک ڈھانچے میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہوں، میری رنگت پیلی پڑ گئی، میرا جسم کانپتا رہتا ہے، نقاہت اتنی کہ میں چل بھی نہیں سکتا۔ میں دماغی طور پر موت کا شکار ہو چکا، میں اس بستر پر پڑا پڑا تباہ ہو چکا، ہر کوئی جانتا ہے کہ میں یہیں پڑے پڑے مر جاؤں گا ۔ ۔ "
یہ تھا احوال ان غداروں کا جنہوں نے سازش کرکے میسور پر قبضہ کیا اور غداری کی تاریخ رقم کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ ٹیپو سلطان کی شہادت بھی مئی کے مہینے میں ہوئی اور نوازشریف کی طرف سے ملک کے ساتھ غداری والا بیان بھی مئی کے مہینے میں ہی آیا۔
مؤرخ ہمیشہ مصروف رہتا ہے اور تاریخ لکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ نوازشریف کی حالیہ غداری کی تاریخ بھی لکھی جارہی ہے اور آنے والی نسلیں جہاں میرصادق، میرجعفر، نظام علی خان، میر عالم، جسونت راؤ، لارڈ والیس اور گورنر مارکس کے قصے پڑھیں گی، وہیں ان کے ساتھ ساتھ نوازشریف کی غداری کی عبرتناک تاریخ بھی پڑھنے کو ملے گی۔
مؤرخ ہمیشہ مصروف رہتا ہے، غداروں کی غداری کے قصے قلمبند کرنا اس کا سب سے محبوب مشغلہ ہوتا ہے!
۔۔۔
وقاص_چودھری

No comments:

Post a Comment