درانی ۵۰ ملین ڈالر مین
بھارت کے شہر کوچی جاتا ہے۔ کام ختم کرنے کے بعد قواعد کی رُو سے اسے واپس کوچی ائیرپورٹ سے فلائی کر کے جرمنی واپس جانا تھا لیکن اس کی فلائیٹ کا روٹ براستہ ممبئی بن گیا۔ پھر اسے ممبئی میں ویزہ کی خلاف ورزی پر گرفتار کر لیا گیا۔ اعلی سطحی رابطے ہوئے، عثمان کا والد بذات خود بھارتی افسران سے رابطہ کرتا ہے اور بالآخر پورا ایک دن حراست میں رہنے کے بعد عثمان کو واپس جرمنی روانہکر دیا جاتا ہے۔
عثمان درانی، پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا بیٹا ہے۔ اس واقعے کے ایک سال بعد اسد درانی سے بھارتی صحافی ادیتیا سنہا رابطہ کرتا ہے اور اسے را کے سابق چیف امرجیت سنگھ دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھنے کی آفر کرتا ہے جو قبول کرلی جاتی ہے۔
پھر اسد درانی، امرجیت دلت اور ادیتیا سنہا جرمنی، ترکی اور نیپال کے شہروں میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں پاکستان اور انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان انٹرویو کے انداز میں صحافی سنہا کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں جسے سپائی کرونکلز کے نام سے کتابی شکل میں ریلیز کر دیا گیا۔
کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستانی فوج کی طرف سے سخت ردعمل آیا کیونکہ امرجیت کی نسبت اسد درانی نے زیادہ بڑے انکشافات کئے ہیں۔
اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی ہوچکی، مجھے نہیں پتہ کہ اسد درانی اپنی صفائی میں کیا کہتا ہے لیکن پاک فوج کو اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ کہیں عثمان درانی کو کسی لڑکی وغیرہ کے ذریعے پھانس کر اسد درانی کو مجبور تو نہیں کیا گیا تھا؟
عین ممکن ہے کہ برخوردار کی کچھ تصاویر یا ویڈیو کلپس کو استعال کرتے ہوئے اسد درانی کو مجبور کیا گیا ہو کہ وہ کتاب لکھنے میں مدد دے۔
عین ممکن ہے کہ برخوردار کی کچھ تصاویر یا ویڈیو کلپس کو استعال کرتے ہوئے اسد درانی کو مجبور کیا گیا ہو کہ وہ کتاب لکھنے میں مدد دے۔
بہرحال یہ کیس اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حساس عہدوں پر کام کرنے والے افسران کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ نہ تو وہ خود بیرون ممالک میں نوکری یا رہائش اختیار کریں گے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ۔ اگر پاکستان میں اعلی عہدے پر فائز ہونا ہے تو پھر قربانی بھی اعلی دینا ہو گی۔
جہانگیر کرامت سے لے کر مشرف، پرویز کیانی اور راحیل شریف تک، سب کے سب آرمی چیفس باہر کے ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور وہیں ان کے کمرشل مفادات بھی وابستہ ہیں۔
آرمی کے سابق افسران کو واپس بلایا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ سول حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ آئینی عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اور ان کے اہل خانہ کسی بھی صورت بیرون ممالک کاروبار یا رہائش اختیار نہیں رکھیں گے، بصورت دیگر ان پر غداری کے مقدمات درج ہوں گے۔
یہ کڑوا گھونٹ اگر آج نہ بھرا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ عام پریکٹس ہوجائے گی کہ پاکستان میں عہدے سے ریٹائرڈ یا حکومت سے علیحدگی کے بعد غیرملکی ایجنسیوں کو پاکستانی راز بیچنے شروع کردیئے جائیں۔
ملک ایسے نہیں چلتے، ہم نے آج تک کسی کو غداری کے جرم میں پھانسی نہیں دی۔ دو چار سر قلم کرنا ہوں گے تاکہ سب کو سبق حاصل ہو اور آئیندہ محتاط رہیں۔۔!!
۔۔۔۔
وقاص چودھری
وقاص چودھری
No comments:
Post a Comment