فری میسن
تاریخی حقائق کی روشنی میں !
۔۔۔
عصر حاضر میں فری میسنز کی ریشہ دوانیوں اور تحقیقات کی بناء پر بے پردہ ہونے والی ان کی فرعونی تاریخ سے آگاہ ہر باشعور انسان اس راز سے آگاہ ہے کہ تاریخی حقائق کے تناظر میں فری میسن کو پرکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طویل تاریخ میں ایسے افراد کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔
جو اپنے شخصی منافع کی تکمیل کی خاطر انسانی اجتماعات اور قوتوں کو استعمال کر کے اپنے سِفلی (شیطانی قوتوں سے حاصل ہونے والے) مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
لہذا اس تناظر میں میں دیکھا جائے تو فری میسن ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک ایسے انسانی مفاد پرستانہ تفکر کا نام ہے جو ہمیشہ سے بعض شیطان صفت انسانوں میں موجود رہا ہے اور یہی وہ تفکر ہے کہ جس کی بنیاد پر ہر دور میں اس طرح کے مزاج کے حامل افراد، حق کی قوتوں کے مقابل کھڑے ہوئے اور انبیا ء کرام علیہم السلام کے مقابلے میں آکر ابلیس کے مددگار قرار پائے ہیں۔
اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ یہودیت کے پائے جانے والے مختلف فرقوں میں سے ایک خبیث فرقے کی ابلیسی مقاصد کی حامل ایک خفیہ عالمگیر تنظیم ’’فری میسن‘‘ کی تاریخ، اس کے تشکیلی مراحل، اس کی اہم شخصیات اور اُن کامختصر تعارف اور اس شیطانی تنظیم کے عقائد، مقاصد اور اہداف کو بھی زیر مطالعہ لا کر اس تنظیم کی ریشہ دوانیوں سے واقف ہوا جائے۔
اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ یہودیت کے پائے جانے والے مختلف فرقوں میں سے ایک خبیث فرقے کی ابلیسی مقاصد کی حامل ایک خفیہ عالمگیر تنظیم ’’فری میسن‘‘ کی تاریخ، اس کے تشکیلی مراحل، اس کی اہم شخصیات اور اُن کامختصر تعارف اور اس شیطانی تنظیم کے عقائد، مقاصد اور اہداف کو بھی زیر مطالعہ لا کر اس تنظیم کی ریشہ دوانیوں سے واقف ہوا جائے۔
فری میسن۔۔۔ دو فرانسیسی الفاظ ’’فرانک‘‘ یعنی آزاد اور ’’میسن‘‘ یعنی مزدور سے تشکیل پایا ہے۔
بعض تحقیقات کے مطابق قرون وسطیٰ میں ’’فرانک‘‘ ان مزدورں کو کہا جاتا تھا جو کسی جبری مزدوری سے معاف تھے، قصہ کچھ یوں ہے کہ کلیسا کی معماری کرنے والے مزدوروں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ بغیر اجرت کے جبری مزدوری سے بچے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے وہ مزدور جن سے کسی اجرت کے بغیر جبری کام لیا جاتا تھا۔ انہوں نے ملک کے اہم ذمہ داروں سے بات چیت اور اصرار کر کے اپنے آپ کو بھی جبری مزدوری سے مستثنیٰ قرار دلوایا اور پھر ان فری میسنز یعنی آزاد مزدوروں نے اپنے درمیان موجود فعال مزدوروں کو فن معماری سکھانے کیلئے کلاسز کا آغاز کر دیا اور اپنے حلقے میں شامل مزدوروں کو اس بات کا پابند کر دیا کہ وہ اس حلقہ سے باہر کسی اور کو اس حلقہ میں داخل ہونے اور اس فن معماری کو سیکھنے کی اجازت نہیں دیں گے تاکہ اس فن کے اسرار و رموز خود ان کے حلقہ کے درمیان ہی باقی رہ سکیں۔
کیمبرج نامی معروف برطانوی لغت نامے کے مطابق ’’فری میسن‘‘ مرد حضرات سے مخصوص ایک خفیہ اور عالمی سطح پر پھیلی ایک ایسی انجمن کا نام ہے جس میں سارے اراکین ایک دوسرے کی مدد کرنے کےساتھ ساتھ باہمی رابطے کیلئے خفیہ زبان استعمال کرتے ہیں۔
تاریخ !
ممکن ہے موجودہ شکل و صورت کی حامل فری میسن نامی یہ تنظیم فقط چند صدیوں کی پیداوار ہو۔ لیکن حقیقت میں شیطان صفت افکار کے حامل افراد نہ صرف طویل تاریخ میں موجود رہے ہیں بلکہ اس دنیا میں جاری خیر و شر کی اس جنگ میں بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ بہرحال دستیاب احوال و شواہد کی بناء پر بات کی جائے تو فری میسن کے عنوان سے معروف یہ عالمی خفیہ تنظیم موجودہ منظم شکل میں چند صدیوں قبل ہی وجود میں آئی ہے۔
ممکن ہے موجودہ شکل و صورت کی حامل فری میسن نامی یہ تنظیم فقط چند صدیوں کی پیداوار ہو۔ لیکن حقیقت میں شیطان صفت افکار کے حامل افراد نہ صرف طویل تاریخ میں موجود رہے ہیں بلکہ اس دنیا میں جاری خیر و شر کی اس جنگ میں بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ بہرحال دستیاب احوال و شواہد کی بناء پر بات کی جائے تو فری میسن کے عنوان سے معروف یہ عالمی خفیہ تنظیم موجودہ منظم شکل میں چند صدیوں قبل ہی وجود میں آئی ہے۔
یورپ میں کلیسائی جبر و تشدد کے مقابلہ میں اُٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر جس کو ’’عہد رنسانس‘‘ کہا جاتا ہے ،کے آغاز کے ساتھ ہی کلیسا کی حاکمیت کے زوال کے آغاز کے ساتھ ہی چرچ کی تعمیرات کا کام بھی اپنے اختتام تک جا پہنچا اور یوں وہ آزاد مزدور جو ’’ فری میسن‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے بےکار ہوتے چلے گئے۔ بعد میں جیمز اینڈریسن نامی معروف فری میسن رکن اور برطانوی ولی عہد جو Theophilus of Dezgol کے نام سے جانا جاتا تھا، ان کی کوششوں سے ایک بار پھر فری میسن کا احیاء کیا گیا جو بعد میں طبقہ اشرافیہ سے مختص ہو کر رہ گئی۔
دستیاب معلومات کے مطابق فری میسن کی ابتدا 24 جون 1717ءکو برطانیہ میں ہوئی۔ فری میسنری کے آئین کی تشکیل اور منظوری 1723ءکو کی گئی، جس کا خالق مشہور فری میسنری شخصیت ”ڈاکٹر جیمز اینڈرسن“ تھا۔
فری میسنز کی تاریخ نگاری میں ایک اور اہم نام 1742 میں پیدا ہونے والا ’’ولیم پرسٹن‘‘ ہے جس نے ڈاکٹر اینڈرسن کی طرح فری میسنز کی تاریخ نگاری کے ساتھ ساتھ اس کے مناسک و مخصوص عبادات بھی کتابی صورت میں تحریر کی ہیں۔
تیسرا اہم ترین و معروف ترین شخص جس کا شمار فری میسنز کے معتبر و معروف تاریخ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ برطانوی فوج کا سابقہ عہدہ دار ’’رابرٹ فریک گولڈ‘‘ نامی شخص ہے کہ جو جنگ عظیم سے واپسی کے بعد برطانیہ میں فری میسنز کے ایک اہم عہدے دار کے طور پر سامنے آیا۔ اس کو 1880 ءمیں فری میسن کی جانب سے ’’خادم اعظم‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اس نے 1882 ءسے فری میسن کی تاریخ نگاری شروع کی اور 1885ء میں اس کتاب کو نشر کیا۔
آج رابرٹ گولڈ کی لکھی ہوئی تاریخ معتبر ترین تاریخ مانی جاتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ رابرٹ گولڈ اپنے شدید مذہبی تعصب اور خصوصا ًاسلام و عربوں سے متعلق اپنی نفرت کے حوالے سے معروف تھا اور یہی وہ چیز تھی جو فری میسن کے مدنظر تھی۔
1723ء سے لے کر 1750ء کے دوران فری میسن نے انگلینڈ اور اس کے ارد گرد تیزی سے اپنا مقام بنا لیا۔ یہ اس وقت ہوا کہ جب شاہی خاندان، اُمراء، وزرا اور اعلیٰ طبقہ فری میسن سے وابستہ ہوا۔ انگلینڈ میں پہلے گرینڈ لاج کے قیام اور باضابطہ طور پر نئے سرے سے نئے مقاصد و عزائم اور لائحہ عمل کے ساتھ جدید فری میسن کے قیام نے انتہائی پذیرائی حاصل کی اور ماسٹر مائنڈ نے 1730ء میں آئر لینڈ اور 1736ء میں اسکاٹ لینڈ میں گرینڈ لاج قائم کر لیے۔ فری میسنری مورخین کے مطابق 1721ء میں بلجیم اور 1725ء میں فرانس میں لاج قائم کیے گئے۔
فری میسن سے وابستہ ایک اور معروف و تاریخی شخصیت جو درحقیقت فری میسن سے وابستہ ایک جادوگر تھا۔ ناسٹرا ڈیمس (Nostradamus) کی شخصیت ہے۔
فرانس کے ایک علاقے Provence میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے اس شخص نے اس علاقے کے فرانس سے الحاق ہوتے ہی کسی حکمت عملی یا کسی اور انگیزے کے سبب اپنے پورے خاندان کے ساتھ کیتھولک عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔
اس کے اجداد مقامی حکومتوں سے کیے گئے معاہدے کے تحت اس علاقے میں ٹیکس کی وصولی کا کام انجام دیا کرتے تھے۔ ناسٹرا ڈیمس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز طبابت سے کیا ۔
فرانس کے ایک علاقے Provence میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے اس شخص نے اس علاقے کے فرانس سے الحاق ہوتے ہی کسی حکمت عملی یا کسی اور انگیزے کے سبب اپنے پورے خاندان کے ساتھ کیتھولک عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔
اس کے اجداد مقامی حکومتوں سے کیے گئے معاہدے کے تحت اس علاقے میں ٹیکس کی وصولی کا کام انجام دیا کرتے تھے۔ ناسٹرا ڈیمس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز طبابت سے کیا ۔
1538ء سے 1547 کے درمیان وہ آسٹریلیا چلا گیا جہاں مقیم یہودی جادوگر اور شیطان پرست فرقہ’’کابالا‘‘ کے ساتھ ملحق ہو گیا۔ فرانس واپس پلٹنے کے بعد ناسٹرا ڈیمس جادوگری، غیب گوئی اور کابالا فرقے کی تبلیغ میں مصروف ہوگیا۔
1550ء میں اس نے باقاعدہ اپنی پیشنگویوں کا آغاز کیا اور معروف ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آخرکار 1555 عیسوی میں اس کی پیشگویوں کی معروف کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب کے اشاعت کےساتھ ہی ناسٹرا ڈیمس پورے فرانس میں مشہور ہو گیا اور اس کی مشہوری کے باعث اس وقت کی فرانس کی ملکہ Catherine de Medicisنے اس کو فرانسیسی دربار کا شاہی مشاور، طبیب اور منجم مقرر کر دیا۔
1550ء میں اس نے باقاعدہ اپنی پیشنگویوں کا آغاز کیا اور معروف ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آخرکار 1555 عیسوی میں اس کی پیشگویوں کی معروف کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب کے اشاعت کےساتھ ہی ناسٹرا ڈیمس پورے فرانس میں مشہور ہو گیا اور اس کی مشہوری کے باعث اس وقت کی فرانس کی ملکہ Catherine de Medicisنے اس کو فرانسیسی دربار کا شاہی مشاور، طبیب اور منجم مقرر کر دیا۔
ملکہ برطانیہ جادوئی علوم اور خفیہ اسرار رموز کی دلدادہ تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے دربار میں ہر وقت جادوگروں اور منجمین کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
اس کے سارے بیٹے بھی ایسے ہی مزاج کے حامل تھے اور جاد و اور خفیہ علوم کے دیوانے تھے۔ اس کا ایک بیٹا جو برطانوی شاہی خاندان میں ’’ہنری سوم‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور برطانیہ کے شاہی خاندان کی تاریخ کے نا اہل ترین شہزادے کے عنوان سے معروف ہے۔
اس کے سارے بیٹے بھی ایسے ہی مزاج کے حامل تھے اور جاد و اور خفیہ علوم کے دیوانے تھے۔ اس کا ایک بیٹا جو برطانوی شاہی خاندان میں ’’ہنری سوم‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور برطانیہ کے شاہی خاندان کی تاریخ کے نا اہل ترین شہزادے کے عنوان سے معروف ہے۔
وہ بھی جادوگری، رمل گیری اور خفیہ علوم کا رسیا تھا۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment