Wednesday, June 27, 2018

اونٹ کا پیشاب پینا اور اسلامی احکامات


کیا اسلام میں اونٹ کا پیشاب پینا جائز ہے؟

==========================


Image result for camel pee

یہ سوال ممکن ہے ہمارے ان قارئین کیلئے تو عجیب ہو جو اس مضمون پر موجود معروف حدیث سے ناواقف ہیں. مگر یہ سوال ان احباب کیلئے نیا نہیں ہے جو متعلقہ حدیث اور اس سے منسلک علمی مباحث سے واقفیت رکھتے ہیں. قبل اسکے کہ مضمون کی گہرائی میں اترا جائے، صحیح بخاری و مسلم کی متفقہ علیہ اس حدیث کو پڑھنا ضروری ہے. "حضرت قتادہؒ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (عرینہ کے) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے یہاں چلے جائیں، یعنی اونٹوں کے پاس اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کرنے کے لئے بھیجا۔ جب انہیں لایا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔ (صحیح بخاری ۔ باب الدواء بابوال الابل)"
.
جان لیں کہ مذکورہ بالا حدیث اور اسی واقعہ سے متعلق دیگر کئی احادیث روایت کے اعتبار سے صحیح ہیں اور ان کی صحت میں محدثانہ اصولوں کے مطابق ضعف نہیں پایا جاتا. لہٰذا مسلمانوں کے علماء میں اس روایت یا واقعہ کے سچ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے. البتہ اسکی تشریح و تفسیر میں بہت سا اختلاف موجود رہا ہے، جس کا ہم اس مضمون میں ان شاء اللہ جائزہ لیں گے. یہ حقیقت ہے کہ درج بالا حدیث کو پڑھ کر اہل علم کے ایک طبقے نے اونٹ کے پیشاب کو جائز یا پاک مان لیا. مگر یہ بھی سچ ہے کہ جید علماء کے دوسرے طبقے نے اس سمجھ کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ اس پر علمی تنقید کرکے غلطی کو واضح بھی کردیا ہے. ہم اسی دوسری رائے کے علمبردار ہیں. یہ معاملہ عجیب ہے کہ کچھ احباب ایک طرف تو اس حدیث کو بنیاد بنا کر اونٹ کا پیشاب پینا درست سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اکثر ہندوؤں کے گائے موتر (پیشاب) پینے پر تحقیری جملے کس رہے ہوتے ہیں. یہ کیسا دہرا میعار ہے؟ جہاں اونٹ کا پیشاب پینا آپ کو بلکل معیوب نہ لگے مگر گائے کا پیشاب پیتے دیکھنا گھن کا سبب بن جائے؟ اونٹ کے پیشاب پینے کے قائلین اسکی افادیت کو بیان کرتی کچھ سائنسی تحقیقات بھی پیش کرتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح ہندو دھرم کے حاملین گائے موتر پینے کے بیشمار فوائد سے متعلق سائنسی ریسرچز کا حوالہ دیتے ہیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ اونٹ کے پیشاب پر شائع ہوئی 'سائنسی' تحقیقات اکثر عرب میں ہوا کرتی ہیں جبکہ گائے کے پیشاب پر پبش سائنسی ریسرچز اکثر انڈیا میں انجام پاتی ہیں. صاف ظاہر ہے کہ یہ نام کی تحقیقات دراصل اپنے پہلے سے قائم کردہ نتیجے کو صحیح ثابت کرنے کی سعی ہوا کرتی ہیں. یہ بلکل ممکن ہے کہ ان دونوں جانوروں کے پیشاب میں کچھ ایسے کیمکلز ہوں جو کسی درجے انسانی صحت میں معاون ہوسکیں. مگر پھر بات ان ہی جانوروں کے پیشاب تک نہیں رہے گی بلکہ دیگر جانوروں کے فضلہ، شراب، منشیات یا دیگر نجس و حرام اشیاء کے اجزاء اور کیمکل ساخت تک بھی جائے گی. جو اپنے حرام و نجس ہونے کے باوجود مختلف صورتوں میں انسانی صحت کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں یا ہوتے ہیں. چنانچہ ایسی کوئی دلیل پیش کرکے اونٹ کے پیشاب کے قصیدے پڑھنا کسی طور درست نہیں۔ یہ اور بات کہ نہ اونٹ کا پیشاب پینا قران حکیم میں درج ہے اور نہ ہی گائے کا پیشاب پینا ہندوؤں کے نمائندہ صحائف میں مذکور ہے.

Image result for camel milk.
اسلام کی تعلیمات جو سراسر طہارت و پاکیزگی پر مبنی ہیں، اس میں کسی جانور کے پیشاب کو پینے کا حکم ہونا اسلام کی عمومی تعلیمات و روح کے یکسر خلاف محسوس ہوتا ہے. پیشاب سے کسی بھی سلیم فطرت انسان کا کراہت اور گریز کرنا لازم ہے. دھیان رہے کہ جہاں کچھ فقہاء درج بالا حدیث کی تشریح میں اونٹ کے پیشاب کا پینا جائز مانتے ہیں، وہاں امام ابو حنیفہ رح، امام شافعی رح، امام ابو یوسف رح، امام سفیان ثوریؒ اور دیگر جبال فقہاء اونٹ کے پیشاب کو نجس ہی کہتے ہیں. چنانچہ احناف جو برصغیر پاک و ہند میں اکثریت میں ہیں، ان کے یہاں اس کا استعمال جائز نہیں. ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی یہی رائے ہے (گو ان کی یہی رائے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے. اسکے برعکس رائے بھی ان سے منسوب کی جاتی ہے). دیگر صریح نصوص احادیث مبارکہ میں ایسے موجود ہیں جن میں واضح طور پر پیشاب کو نجس بتایا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے. نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی انسان یا جانور کے پیشاب کی کسی درجے میں بھی تخصیص نہیں کی۔ جیسے ارشاد پاک ہے "پیشاب سے بچو کیونکہ عمومی طور پر قبر کا عذاب پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔" (مستدرک حاکم، ابن ماجہ، دار قطنی، صحیح ابن خزیمہ) اسی طرح دوسری دلیل مسند امام احمد میں مذکور ہے کہ دفن کے بعد میت کو قبر نے زور سے بھینچا اور دبایا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عذاب ان کا پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے تھا۔ گویا متعدد احادیث صحیحہ سے پیشاب کا بلا تفریق نجس و ناپاک ہونا ثابت ہوتا ہے. اس امر پر بھی غور کیجیئے کہ کئی طیب غذائیں ایسی ہیں جن کو شفاء کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو استعمال کی تلقین کی جیسے کھجور، شہد، کلونجی، دودھ وغیرہ. اسی طرح حجامہ جیسے طریق علاج کا ذکر صراحت سے ہم سب کیلئے موجود ہے. اسکے برعکس اونٹ کے پیشاب کی کوئی فضیلت یا عوام الناس کو اسکے استعمال کی کوئی ترغیب احادیث میں موجود نہیں ہے. بس یہی ایک مبہم سا واقعہ اس ضمن میں بیان ہوتا ہے. اب اس مقام پر ضروری ہے کہ ہم زیر گفتگو حدیث کے الفاظ و مضمون پر بات کریں اور ممکنہ زاویوں یا امکانات سے اس خبر احد کو سمجھنے کی کوشش کریں. 
.
١. جس سخت تکلیف یا وبائی مرض میں اس قبیلے کے افراد مبتلا ہوئے تھے، کیا معلوم وہ اس نوعیت کا ہو جس کی کوئی طیب دوا موجود نہ ہو؟ اس طرح یہ لوگ مضطر کے حکم میں آگئے اور مضطر کے لئے نجس چیز کا استعمال جائز ہے۔ یعنی اگر کسی انسان کی جان خطرہ میں ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے حرام چیز سے علاج کیا جاسکتا ہے. آج بھی اگر کسی جان لیوا بیماری کا کوئی طیب و حلال علاج میسر نہ ہو تو بطور علاج نجس و حرام اختیار کرنا جائز ہے. 
.
٢. حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی خاص وبائی بیماری کے 'علاج' کیلئے تھا. اس بیماری کی درست تفصیل ہمیں حاصل نہیں. کچھ کے نزدیک وہ پیٹ پھولنے اور خارش کا مرض تھا. اب جب ہمیں اس مرض کا ہی درست ادراک نہیں جسکے لئے اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کی بات کی جاتی ہے تو پھر آج اس نجس و حرام کو کسی اور بیماری کیلئے استعمال کرنا خلاف عقل و شریعت ہے. 
.
٣. جب اس پر بحث نہیں کہ یہ استعمال بیماری کے 'علاج' کے واسطے تھا تو پھر آج اسے سافٹ ڈرنک، شیمپو، صابن یا دیگر بیوٹی ٹریٹمنٹ کے طور پر بیچنا یا استعمال کرنا سمجھ سے بالاتر ہے. 
.
٤. حدیث کے مضمون سے آخری درجے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ مریض اندر سے منافق و فسادی تھے. لہٰذا شفاء یاب ہوتے ہی انہوں نے فساد یعنی قتل کیا اور ارتداد اختیار کرلیا. ایسے میں قوی تر امکان یہی ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کردیا ہو یا خاص ان ہی منافقین کیلئے پیشاب پینے کا حکم دیا ہو. ہم جانتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ وحی سے تائید حاصل رہتی تھی. اس امکان کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ اونٹ سمیت کسی بھی طرح کا پیشاب پینے کا حکم نہ اس واقعہ سے قبل کبھی بارگاہ رسالت سے صادر ہوا اور نہ ہی اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کو کوئی ایسی ترغیب ملی. 
.
٥. اکابر علماء میں ایک رائے یہ بھی رہی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب پینے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ اس کے خارجی استعمال کا حکم دیا تھااور اصل عبارت یوں تھیں: اشربوا من البانہا واضمدوا من ابوالہا۔ اضمدوا کے معنی ہیں لیپ چڑھانا۔ کچھ اہل علم عربی لغت اور زبان کے قاعدے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات جملے میں ایک بات کا عملی اطلاق بیان کرکے دوسری بات کا اطلاق یہ بھروسہ رکھتے ہوئے حذف کردیا جاتا ہے کہ سامع یا قاری اسے لازمی سمجھ لے گا. جیسے میں کہوں کہ 'وہاں کھانے کو لذیز پکوان ہیں اور مناظر' - اب سننے والا یہ بخوبی سمجھ لے گا کہ مناظر 'کھانے' کیلئے نہیں ہیں بلکہ دیکھنے کیلئے ہیں. اسی طرح زیر گفتگو حدیث میں جب الفاظ آئے " واﻣرھم ان ﯾﺷرﺑوا ﻣن اﻟﺑﺎﻧﮭﺎ وأﺑواﻟﮭﺎ" - "ان لوگوں کوانھوں نے کہا (وہاں جا کر ان اونٹنیوں کا)دودھ پی لیں اور پیشاب بھی۔" تو یہاں مراد پیشاب پینا نہیں بلکہ عرب میں رائج طریقہ علاج کے تحت اسے زخم پر لگانا ہے. 
.
٦. صحیح بخاری میں ہی اس حدیث سے قبل حضرت ثابت ؒ سے مروی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث بھی مذکور ہے جس میں ان حضرات کا علاج صرف دودھ سے مذکور ہے، اس حدیث میں پیشاب کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے. 
.
٧. رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہمارا دین سیکھانے آئے اور اونٹ کا پیشاب بطور علاج پینا کسی طور بھی دین میں شامل نہیں. اس اصول کو سمجھنے کیلئے ایک صحیح ترین حدیث پڑھیئے: "ام المؤمنین عائشہ اورصحابی رسول انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں فرمایا: ''یہ کیسی آوازیں ہیں؟'' صحابہ نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ کجھوروں کی پیوندکاری کررہے ہیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگریہ لوگ ایسانہ کریں تو بہترہے'' تو اس سال لوگوں نے کجھورکی پیوندکاری نہیں کی، جس کی وجہ سے اس سال کجھورکی فصل اچھی نہ ہوئی،تو لوگوں نے اس کاتذکرہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو تم اسے جس طرح چاہو انجام دو لیکن اگرتمہارے دین کا معاملہ ہو تو میری طرف رجوع کرو''َّ[مسند أحمد: 41/ 401 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]۔
.
Image result for camel pee
یہ وہ چند ممکنہ زاویئے و امکانات ہیں جو اہل علم نے اس حدیث کی تشریح میں بیان کیئے ہیں، جنہیں ہم نے قرین قیاس پایا ہے اور جنہیں مدنظر رکھ کر ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں. کچھ فقہاء جیسے امام مالک ؒ نے جو رائے اختیار کی ہے، اسکے مطابق جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے اور جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا اُن کا پیشاب ناپاک ہے۔ اس رائے کے استدلال میں وہ دو احادیث پیش کرتے ہیں. پہلی تو وہی جو اونٹ کے پیشاب کو بطور علاج استعمال کرنے سے متعلق ہے اور جس کی وضاحت اپر کی جاچکی ہے. جبکہ دوسری حدیث کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتے ہو۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر ان کا پیشاب ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت کیوں دیتے؟ یہ دلیل دیگر فقہاء کے سامنے خاصی کمزور ہے. اول تو حلال جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کو بھی اس حدیث کی بناء پر پاک و جائز کہنا سمجھ نہیں آتا. پھر اگر ایک لمحے کو اسے مان بھی لیں تو گوشت کھائے جانے والے جانوروں کے پائخانہ کو ناپاک اور ان کے پیشاب کو پاک قرار دینے کی وجہ سمجھ نہیں آتی. اب آجایئے اس دوسری حدیث پر جس میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو اسکے مکمل الفاظ یہ ہیں: صَلُّوا فِیْ مَرَابضِ الْغَنَمِ وَلَا تُصَلُّوا فِی اعْطَانِ الْاِبِل "بکریوں کے باڑہ میں نماز ادا کرلو لیکن اونٹوں کے باڑہ میں نماز ادا نہ کرو"۔اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بکریوں کا پیشاب عموماً دور دور نہیں جاتا ہے لہذا بکریوں کے باڑے میں تو کسی پاک وصاف جگہ نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اونٹ کا پیشاب دور دور تک بہتا ہے لہذا اونٹ کے باڑے میں پاک وصاف جگہ کا موجود ہونا دشوار ہے لہذا اونٹ کے باڑے میں نماز ادا نہ کرو۔ گویا اس حدیث سے امام ابو حنیفہ رح اور اس حوالے سے ان کے ہم خیال فقہاء کی رائے کا انکار ممکن نہیں. 
.
ایک اور اشکال و اعتراض جو اس حدیث کی آخری سطر سے پیدا ہوتا ہے، وہ ان افراد کا تشدد آمیز قتل ہے (ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔) اس کا جواب ایک دوسری حدیث سے ملتا ہے جس کے مطابق ان مرتدین و منافقین نے اونٹوں کے چرواہے کو اسی تشدد و ظلم سے قتل کیا تھا اور اسکی آنکھوں میں سلائی پھیر دی تھی. لہٰذا انہیں بھی بطور سزا ایسی ہی موت دی گئی اور آنکھوں میں سلائی پھیری گئی. 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: راقم دین کا ایک معمولی طالبعلم ہے لہٰذا درج کردہ مضمون میں غلطی کا امکان قوی ہے. گو جس رائے کو راقم نے بیان کیا ہے وہ جلیل القدر فقہاء بشمول امام ابو حنیفہ رح کی بھی ہے. جن دوسرے جلیل القدر فقہاء نے مقابل رائے اختیار کی ہے وہ سب بھی ہمارے اساتذہ اور سر کا تاج ہیں. گو اس مخصوص مسئلے میں ہم ان سے خود کو متفق نہیں پاتے)

Monday, June 25, 2018

ضیاء شاہد الیکٹرانک میڈیا اور انکے مالکان کا اصلی چہرہ



Image result for zia shahid


یہ ہے الیکٹرانک میڈیا اور انکے مالکان کا اصلی چہرہ
ضیاء شاہد ایک سکول ٹیچر سے ینگ بچیوں کی سپلائی مانگ رہے ہیں پوری زمہ داری سے پوسٹ کر رہا ہوں یہ آڈیو ہر طرح سے اصلی ہے اور اس گھٹیا شخص کا روپ بھی اصلی ہے۔

یہی لوگ ہیں جو اپنے چینلز اور اخبارات میں اخلاقیات پہ بھاشن دیتے ہیں اور چائیلڈ ابیوز کے خلاف بولتے ہوئے منہ سے تھوک برسا رہے ہوتے ہیں ۔
دو گھنٹے سے ہر طرح سے تسلی کرکے پوسٹ لگا رہا ہوں اس جنسی درندے کو بےنقاب کریں اب دیکھتے ہیں کونسا ارادہ اسکے خلاف ایکشن لیتا ہے
کون سا جج سو موٹو لیتا ہے
کونسا اینکر اس سکینڈل پر پروگرام کرتا ہے
کونسے دانشور آرٹیکل لکھتے ہیں
اور کون ایسے گھٹیا اور غلیظ لوگوں کے غلاف آواز بلند کرتا ہے
اگر ہر طرف خاموشی ہی رہی تو ہمیں بھی اب حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہم آخر چاہتے کیا ہیں؟
سیاستدان اور ڈکٹیٹرز قومی سطح پر وطن کی بیٹیاں بیچتے بیچ رہے ہیں
صحافی دلالی کررہے ہیں
قوم ٹھرک جھاڑ رہی ہے
بچیوں کی لاشیں کوڑے کے ڈھیر اور کھیتوں سے مل رہی ہیں
پانچ سال سے پچاسی سالہ عورتوں کے ریپ ہو رہے ہیں
کم سن بچوں کو ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں نشانہ بنایا جارہا ہے
پوری قوم یا تو دلال ہے یا گاہک یا مال یا پھر بے غیرت بن کر خاموش بیٹھے ہیں
امت کہاں ہے؟
کہاں ہے قائد کا پاکستان؟

اگر یہی حال رہا تو ایک بات کان کھول کر سن لیں آج کا دردمند دل رکھنے والا نوجوان جتنا دلبرداشتہ ہوچکا ہے کوئی نا کوئی چن چڑھ کے ہی رہے گا۔
خدارا اس خنزیر کو فلفور گرفتار کرکے تفتیش کا آغاز کیا جائے یہ اب تک کتنی بچیوں کی عزت تار تار کرچکا ہے۔
اگر ایسا نہی ہوتا تو ضیاء شاید تیار رہے ہم خود سوموٹو لینگے۔ سوشل میڈیا اسکو کڑی ٹکر دے گا
اگر اس عورت نے آڈیو وائیرل کرکے دبنگ کام کیا ہے تو ہم اسکے ساتھ ہیں یہ جنسی درندہ بچ نہی پائے گا انشاءاللہ

بقلم برادر عمران حیدر

Saturday, June 23, 2018

2018 میں دنیا کی تیز ترین فوج ہونےکا ٹائٹل پاک فوج نے آپنے نام کرلیا -





دنیا کی تیز ترین فوج ہونےکا ٹائٹل پاک فوج نے آپنے نام کرلیا - 2018
پاکستان آرمی نے بین الاقوامی فوجی ڈرل مقابلہ جیتنے والی مقابلہ کے طور پر جانا ہے۔ پاکستان ٹیم نے پہلی بار اس تقریب میں شرکت کی. پاکستان فوج کی اکیڈمی ٹیم نے مقابلہ میں پاکستان آرمی کی نمائندگی کی۔
Image result for pakistan army wins competition uk 2018




دنیا کی تیز ترین فوج ہونےکا ٹائٹل پاک فوج نے آپنے نام کرلیا - 2018

Monday, June 18, 2018

پاکستان کے روحانی پہلو !

Image result for pakistan


پاکستان کے روحانی پہلو۔۔


پاکستان آج کی رات یعنی 27 رمضان کو وجود میں آیا۔ مولانا طارق جمیل صاحب کے بقول یہ اتفاق نہیں بلکہ انتخاب تھا۔ اللہ نے اس عظیم 
ریاست کو وجود میں لانے کے لیے سال کی سب سے بہترین رات منتخب کی تھی۔ بہت سے نیک لوگوں کو یقین ہے کہ جس رات پاکستان وجود میں آیا اس رات لیلاۃ القدر تھی۔
مستقبل کے حوالے سے حضورﷺ کی کئی احادیث میں سعودی عرب سے مشرق کی سمت کسی ریاست کا ذکر آتا ہے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں اہم ترین کردار ادا کرے گی مثلاً
غزوہ ہند کی مشہور حدیث جس کے مطابق ایک اسلامی ملک پہلے ہندوستان فتح کرے گا اور پھر اہل یہود کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑے گا۔
اسی طرح روایات ہے کہ حضورﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میرا دین پوری دنیا میں کمزور ہوگا تو وہاں سے اٹھے گا۔
ایک اور موقعے پر فرمایا کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں۔ جس پر علامہ اقبال نے قسم کھائی کہ ۔۔۔۔
میر عرب کو آئی تھی جہاں سے ٹھنڈی ہوائیں 
وہی میرا وطن ہے وہی میرا وطن ہے

اب ذرا یہ چیک کرتے ہیں کہ کیا پاکستان کے متعلق واقعی علامہ اقبال کا گمان درست تھا اور حضورﷺ کی احادیث میں پاکستان ہی کی طرف اشارہ تھا!
یہ تو آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں مدینے کے بعد پاکستان دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پر بنی ہے۔ لیکن مدینے سے مماثلت کا معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں !
مدینے کو اس وقت مشرکوں ( بت پرستوں) سے خطرہ تھا ان مشرکوں کی مدد یہودی کر رہے تھے۔
پاکستان کو بھی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مشرک (بت پرست) ریاست انڈیا سے خطرہ ہے جس کی مدد اسرائیل یعنی یہودی کر رہے ہیں۔
مدینے کی مشرکوں کے خلاف تین بڑی جنگیں ہوئیں اور چوتھی جنگ فیصلہ کن تھی جس میں مکے کو فتح کر لیا گیا تھا۔
پاکستان کی مشرکوں ( انڈیا ) کے ساتھ اب تک تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ چوتھی جنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فیصلہ کن ہوگی۔
دونوں کے نام کا مفہوم بھی ایک ہی ہے۔ پاکستان کا مطلب ہے " پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ " ۔۔۔۔۔۔۔ مدینہ کو پہلے مدینہ النبی اور بعد میں مدینہ طیبہ کہا جانے لگا جس کا مطلب ہے " پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ"

Image result for pakistan
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے آج سے 850 سال پہلے نہ صرف قیام پاکستان کی پیشن گوئی فرمائی تھی بلکہ اس ملک سے اللہ نے جو کام لینے ہیں ان کے بارے میں بھی بتا دیا تھا ۔ قیام پاکستان سے پہلے نعمت اللہ شاہ ولی نے فرمایا تھا کہ
بعد ازاں گیرد نصارے ملک ہندویاں تمام ۔۔۔۔۔ تاصدی حکمش میاں ہندوستاں پیدا شود
یعنی انگریزوں کی حکومت صرف ایک صدی تک قائم رہے گی۔ نعمت اللہ شاہ کے اس شعر پر لارڈ کرزن نے پابندی لگوا دی تھی۔

اس کے بعد قیام پاکستان سے متعلق فرماتے ہیں 
دو حصص چوں ہند گردو خون آدم شدرواں ۔۔ شورش و فتنہ فزون از گماں پیدا شود 
یعنی ہندوستاں دو حصوں میں تقسیم ہوجائیگا اور بہت زیادہ شورش اور خون خرابہ ہوگا۔

پھر فرماتے ہیں ۔۔
مومناں یا بنداماں در خظہ اسلاف خویش ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعدازرنج و عقوب بت بخت شاں پیدا شود 
یعنی مسلمان دراسلام میں امان حاصل کرلینگے۔ اس شعر میں ان مہاجرین کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے ہندوؤں کے ظلم ستم سہنے کے بعد پاکستان آکر آمان پائی۔

65ء کی جنگ کا بھی ذکرکیا ہے کہ 17 دن چلے گی اور مومنوں کو اللہ فتح دے گا لیکن 71ء کی جنگ کے حوالے سے دلچسپ شعر کہا کہ 
نعرہ اسلام بلند شد بست دسہ ادوارچرخ ۔۔۔۔ بعد ازاں بارد گریک قہر شاں پیدا شود 
یعنی اسلام کا نعرہ 23 سال تک بلند رہے گا جس کے بعد دوسری مرتبہ ان پر قہر ٹوٹے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن ٹھیک 23 سال بعد سازشیوں نے اس میں لسانیت کا زہر گھول دیا اور بنگالی کا نعرہ بلند کیاگیا تب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا۔ اپنی اس کامیابی پر اندرا گاندھی نے بڑے مغرور انداز میں کہا تھا کہ " آج نظریہ پاکستان کو ہم نے خلیج بنگال میں غرق کر دیا " ۔۔ یہ وہی نظریہ ہے جسکا اوپر شعر میں ذکر ہے۔

اشعار بہت زیادہ ہیں نیٹ پر باآسانی مل جائنگے ہم یہاں خلاصہ لکھتے ہیں کہ نعمت اللہ شاہ نے پاکستان کو ایک زبردست جنگجو لیڈر ملنے کی پیش گوئی کی ہے جس کی قیادت میں پاکستان کی انڈیا کے ساتھ ایک آخری اور فیصلہ کن جنگ ہوگی جس میں ابتداء میں پاکستان اٹک تک خیبر پختنواہ اور پنجاب کے کئی علاقے کھو دے گا۔ لیکن مسلمان جنگ جاری رکھینگے جس کے بعد بلاآخر انڈیا کو مکمل طور پرمغلوب کر دیا جائیگا۔
جہاں تک جنگجو حکمران کی بات ہے تو گمان غآلب ہے کہ وہ کوئی سپاہ سالار ہی ہو سکتا ہے۔ ہم نے پاکستان کی 68 سال تاریخ میں دیکھ لیا ہے کہ جرنیل ہمیشہ پاکستان کے لیے بہترین حکمران ثابت ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ ان اشعار کے حوالے سے دو چیزیں ایسی ہیں جو آج ہمیں نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان کی مدد منگول کرینگے۔ ان کے دورمیں چینی قوم کو منگول بھی کہا جاتا تھا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ انڈیا کے خلاف چین اور پاکستان متحد ہوچکے ہیں۔
دوسری اٹک تک کا علاقہ کھونے کی بات کو اس تناظر میں دیکھیں کہ افغانستان میں موجود 2 لاکھ افغان نیشنل آرمی سخت پاکستان دشمن ہے اور انکی قیادت انڈیا کے زیراثر ہے۔ ان کا پاکستان میں اٹک تک کے علاقے پر دعوی بھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جب پاک فوج انڈیا کے ساتھ مصروف جنگ ہو تو افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کو موقع مل جائے پاکستان پر مغربی سمت سے حملہ کرنے کا اور پاک فوج کی غیر موجودگی میں ان کے لیے ان علاقوں میں پیش قدمی کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ گمان غالب ہے کہ ان کے خلاف پاکستان کی مدد افغان طالبان کرینگے!
نعمت اللہ شاہ ولی کی یہ پیشن گوئیاں یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ غزوہ ہند لڑنے والی جس عظیم فوج کا حضورﷺ نے ذکر کیا ہے وہ پاک فوج ہی ہے۔ اس پر ایک دلیل اور بھی ہے۔ غزوہ ہند والی حدیث میں لڑنے والی فوج اسرائیل کے خلاف بھی جنگ کرے گی یعنی یہودیوں سے۔ آج اس خطے میں جو اسلامی ممالک موجود ہیں ان میں سے صرف پاکستان ہی واحد اسلامی ملک ہے جسکی بیک وقت اسرائیل اور انڈیا کے ساتھ معاملات خراب ہیں اور کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ یہ شرط نہ افغانستان پوری کر سکتا ہے نہ بنگلہ دیشن اور نہ ہی ایران۔
اب نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئیوں کے حوالے سے ایک چھوٹا سا واقعہ آپکو سناتے ہین۔ 
نعمت اللہ شاہ کی پیشن گوئیوں کو سن کر ایک 25 سال کا جوان 1857ء کی جنگ آزادی میں شریک ہوا ۔ وہ فتح کے لیے پر امید تھا لیکن اسی جنگ کے دوران اس نوجوان کو ایک بزرگ ملے اور اس سے کہا کہ " تم کو جس فتح کی خوشخبری دی گئی تھی یہ وہ نہیں ہے اس میں ابھی 90 سال باقی ہیں ۔ ایک ملک بنے گا جو عالم اسلام کا مرکز بنے گا اور تم اسکو دیکھو گے۔
یہ سن کر وہ نوجوان جنگ چھوڑ کر چلا گیا اور انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ ٹھیک 90 سال بعد پاکستان بنا ۔ وہ پھر بھی زندہ رہا اور جب اسلام آباد بنا تب وہ 160 سال کی عمر میں فوت ہوا اور اسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں دفن ہوا ۔ جہاں اسکی قبرکی تختی پر اس معاملے کا ذکر بھی ہے۔ انکی قبر قدرت اللہ شہاب کی قبر کے نزدیک ہے۔ قبر پر انکا نام عبد اللہ محبوب لکھا ہوا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ شخص حضرت مہاجر مکی تھے۔ واللہ اعلم

ہالینڈ کی نیشنل لائبریری میں ہاتھ لکھی ہوئی ایک دستاویز موجود ہے جو حضرت بری امام سے منسوب ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ " ایک دن ہمارا یہ شہر تمام عالم اسلام کا مرکز بنے گا " ( بری امام صاحب اسلام آباد میں دفن ہیں) وہ آج سے 300 سال پہلے گزرے ہیں۔
شیخ لہند نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن پاکستان بن جانے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ " اب پاکستان مسجد کے حکم میں ہے اور اسکی حفاظت فرض ہے " ۔۔ 
مولانا اشرف علی تھانوی نے قیام پاکستان سے غالباً 6 سال پہلے اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ " پاکستان بن جائیگا تم وہاں چلی جانا " ۔۔۔

خان آف قلات کو حضورﷺ خواب میں آئے تھے کہ " پاکستان کے ساتھ شامل ہوجاؤ " ۔۔۔
صوفی برکت علی نے فرمایا تھا کہ " ایک دن پاکستان کی ہاں اور ناں میں دنیا کی ہاں اور ناں ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو میری قبر پر آکر تھوک دینا" ۔۔۔
بات صرف ہمارے بزرگوں تک محدود نہیں۔ کفار کے بڑوں نے بھی اس حوالے سے پیشن گوئیاں کر رکھی ہیں مثلاً
ہندو ہر بڑا کام کرنے سے پہلے حساب کتاب کرتے ہیں زائچے بناتے ہیں، مہورتیں نکلاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد گاندھی نے پنڈت و نجومی بلوا کر حساب کتاب کیا اور پھر اعلان کیا کہ پاکستان اور انڈیا میں 4 جنگیں ہونگی اور چوتھی جنگ فیصلہ کن ہوگی۔ گاندھی نے یہ نہیں بتایا کہ جنگ کا فاتح کون ہوگا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اس کے بعد اس نے انڈیا کو پاکستان کے خلاف جنگ سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی یہانتک کے پاکستان کو اسکا حق دلوانے کے لیے مرن بھرت یا بھوک ہڑتال کر دی تھی جس پر اسکو قتل کر دیا گیا۔
اسی طرح ڈیوڈ بن گوریان جو کہ اسرائیل کے بانیوں میں سے تھا اس نے پاکستان کے حوالے سے پیشن گوئی کی تھی کہ "بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔ پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی نظریاتی جواب ہے۔پاکستان کا ذہنی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے باعث مصیبت بن سکتی ہے ہمیں اچھی طرح سوچ لینا چاہئے ۔بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری بلکہ مفید بھی ہے ہمیں اس تاریخی عناد سے لازماً فائدہ اٹھانا چاہئیے جو ہندو پاکستان اور اس میں رہنے وا لے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے ۔ یہ تاریخی دشمنی ہمارے لیے زبردست سرمایہ ہے۔لیکن ہماری حکمت عملی ایسی ہونی چاہئیے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعے ہی بھارت کے ساتھ اپنا ربط و ضبط رکھیں"۔۔۔۔۔۔ {یروشلم پوسٹ 9 اگست 1967}
عالم کفر کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 

Image result for pakistan

عیسائیت، یہودیت، مشرکین اور ملحدین
بہت کم لوگوں کو احساس ہوگا کہ پاکستان اس وقت بھی ان چاروں سے بیک وقت برسرپیکار ہے اور ان سب کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ 
مشرکین کی نمائندہ ریاست انڈیا ہے جبکہ یہودیوں کی اسرائیل۔ ان کے خلاف پاکستان کی جنگ سے ہم سب واقف ہیں۔ 
جدید الحاد کی سب سے بڑی نمائندہ ریاست روس ہے جو اپنے وقت کی سپر پاور تھی۔ جب وہ اپنے الحادی نظریات کو پوری طاقت سے دنیا بھر میں پھیلا رہی تھی تب پاکستان کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی۔ 
امریکہ بظاہر پاکستان کا اتحادی ہے لیکن اب دنیا جان چکی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو درحقیقت کس کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہے۔

یہ پیشن گوئی قدرت اللہ شہاب کی کتاب میں بھی موجود ہے جس کے مطابق جب وہ 1959ء میں یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ کے ممبر تھے تو اس وقت ان کے تعلقات ایک یورپی باشندے سے ہوئے جس نے قدرت اللہ شہاب کو بتایا کہ " کہ اگرچہ امریکہ اور روس ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن پاکستان کو دونوں اپنا دشمن سمجھتے ہیں" ۔۔۔
پھر اس نے وضاحت کی کہ " یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی اعلی ترین افواج میں ہوتا ہے اور یہ حقیقت نہ روس کو پسند ہے نہ امریکہ کو " ۔۔۔
" روس کی نظریں افغانستان اور پھر بحیرہ عرب پر ہیں جن کو قابو کرنا پاک فوج کی موجودگی میں نہ ممکن ہے " ( جنرل ضیاء نے اسکو بعد میں سچ ثابت کر دیا )
"جبکہ امریکہ اسرائیل کا حلیف ہے اور جانتا ہے کہ اگر اسرائیل کے خلاف عالم اسلام کی جانب سے عالمی طور پر جہاد کا اعلان ہوا تو پاکستان کی افوج اور نہتی آبادی بھی کسی حکم کا انتظار کیے بغیر اسرائیل پر چڑھ دوڑے گی " ( یہ پیشن گوئی غزوہ ہند والی حدیث میں بھی ہے اور نعمت اللہ شاہ ولی نے بھی یہی بات کی ہے )

اکھنڈ بھارت، گریٹر اسرائیل اور صہیونی تحریک کے راستے کی سب سے بڑی رکاؤٹ پاکستان ہے۔ انڈیا پاکستان کی وجہ سے اب تک صرف کشمیر پر قابونہیں پا سکا۔ اسرائیل نے دو بار آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پاکستان کے ہاتھوں رسوا ہوا۔ روس پاکستان کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ امریکی جنگی ماہرین کے مطابق امریکہ کی افغانستان میں ناکامی کی وجہ پاکستان ہے!
پاکستان کے ساتھ ایک اور معاملہ بھی عجیب و غریب ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کو اللہ زمین میں ہی نشان عبرت بنا دیتا ہے۔ مثلاً سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار سارے کردار جنہوں نے پاکستان کو توڑا تھا اللہ نے انکو انکے خاندانوں سمیت مٹادیا۔
ذولفقارعلی بھٹو کا سارا خاندان غیر طبعی موت مرا اور آج درحقیقت اسکا کوئی نام لیوا موجود نہیں۔ بلاول بھٹو حقیقت میں بلاول زرداری ہے۔ 
شیخ مجیب الرحمن اپنے پورے خاندان سمیت مارا گیا صرف اسکی ایک بیٹی باقی بچی۔ 
اسی طرح اندرا گاندھی نہ صرف خود قتل ہوئی بلکہ اسکا بیٹا راجیو گاندھی بھی قتل ہوا اور دوسرے بیٹے سنجے گاندھی کا 33 سال کی عمر میں پلین کریش ہوگیا یوں اسکا پورا خاندان ختم ہوگیا۔

دنیا بھر میں اس وقت عالم اسلام کے خلاف آپریشن ہارنسٹ نسٹ کے نام سے ایک پراکسی جنگ جاری ہے جس میں خوارج کے ذریعے اسلامی ملکوں کو بہت تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اس جنگ میں عالمی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور خوارج کو عملی اور نظریاتی دنوں محاذوں پر پسپائی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کا کیا حال ہوتا ہے ! 


طاہر یلد شیف کو روس نے " شیطان " کا نام دے رکھا تھاکیونکہ انکا خیال تھا کہ یہ مرتا نہیں ہے۔ اس شخص کوامریکہ ازبکستان میں روس کے خلاف سال ہا سال تک استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس شخص کو جب پاکستان کے خلاف لانچ کیا گیا تو کچھ ہی عرصے بعد یہ پاک فوج کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔
اسی طرح سری لنکا کے خلاف لڑنے والی تامل تحریک کے لیدڑپربھاکرن کو لوگ سورج دیوتا کہتے تھے کیونکہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسکو موت نہیں آتی۔ لیکن جب ان تاملز نے پاکستان پر لاہور میں حملہ کیا تو جواباً پاک فوج نے سری لنکن فوج کے ساتھ ملکران تاملز کے خلاف آپریشن کیا جس میں وہ سورج دیوتا مارا گیا۔ 
عجیب بات ہے کہ پاکستان کے خلاف لڑنے والے اکثر خارجیوں کو تین چار سال سے زیادہ کی مہلت نہیں ملتی!

اب اس مضمون کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذرا ان "اتفاقات" پر غور فرمائیے!
پاکستان آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک نہیں لیکن اس کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ نمازی، روزے دار، زکواۃ دینے والے، مساجد، علماء، حفاظ اور حاجی پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ 
پاکستان دنیا میں دعوت و تبلیغ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ 

Image result for pakistan
پاکستان دنیا میں جہاد کا سب سے بڑا مرکز ہے۔

پاکستان کو اللہ نے دنیا میں سب سے اہم سٹریٹیجک لوکیشن دی ہے اور دنیا کی کئی بڑی سپر طاقتیں بیک وقت کسی نہ کسی طرح پاکستان پر انحصار کرتی ہیں۔ یہی حال پاکستانی سمندر کا بھی ہے خاص کر گوادر کا۔
پاکستان کو اللہ نے 5 موسم دئیے ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستان صحیح معنوں میںٰ اپنی زمینوں سے پیدوار لے تو پورے براعظم کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس بے پناہ معدنی وسائل ہیں جن میں صرف تھر کا کوئلہ ہی سعودی عرب کے کل تیل کے ذخائر سے زیادہ مالیت کا ہے۔
پاکستان سوئی نہیں بنا سکتا لیکن دنیا کے جدید ترین میزائل بنا چکا ہے۔ پاکستان کے نیوکلئر میزائل پروگرام کا مقابلہ اس وقت دنیا میں صرف امریکہ اور چین کر سکتا ہے۔ باقی ممالک کو اس معاملے میں پاکستان پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
کیا یہ سب واقعی محض اتفاقات ہیں ؟؟؟
پاکستان کے خلاف بے پناہ سازشیں ہونے کے باوجود اب تک اللہ نے اسکو بچایا ہے۔ کیسے کیسے ؟ اس پر اگر لکھا جائے تو شائد ایک پوری کتاب کی ضرورت پڑے۔ یہاں 65ء کی جنگ کے واقعات بھی نہین لکھے جا سکے جس میں اللہ نے بلکل ویسے پاکستان کی مدد فرمائی تھی جیسے اصحاب بدر کی فرمائی تھی۔
واللہ پاکستان اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ یہ محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ ایک مقدس امانت ہے۔ اس کے ساتھ آنے والے وقت کے بہت سے اہم ترین معاملات وابستہ ہیں۔ جو شخص اس امانت میں خیانت کرے گا وہ اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ پائیگا!
علامہ اقبال جس کوایک دنیا اللہ کا ولی مانتی ہے نے اپنی عمر کا آخری حصہ اس پاکستان کے بارے میں لوگوں کو آگہی دیتے گزار دیا!
صرف ایک مضمون میں پاکستان کے حوالے سے سب کچھ نہیں سمیٹا جا سکتا۔ کوشش کی ہے کہ کچھ چیدہ چیدہ معاملات پر لکھا جائے۔ آج بڑی خاص رات ہے جس جس ساتھی تک یہ پیغام پہچ رہا ہے اس سے اپیل ہے کہ آج کی رات اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور پاکستان کے لیے خاص طور پر دعا کرے۔

Saturday, June 16, 2018

دیوداسی - بھارت کی شرمناک رسم کی داستان

Image result for devadasi

بھارت کی شرمناک رسم کی داستان 
کچھ خوفناک اعداد و شمار !



کچھ روز پہلے ایک دوست کے گھر محفل سجی، جس میں پاکستانی سیاست و سماج کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی عالمی پالیسیوں پر بھی بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ علمی و فکر سے مزین نشست کے دوران پربھوداسی نظریئے پر بھی بحث کی گئی، اس حوالے سے دوستوں نے بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ گفتگو کے دوران کہا گیا کہ روشن اور سیکولر بھارت میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی بچیاں بھی ہیں جنہیں پربھوداسیاں کہا جاتا ہے، جو خوفناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ محفل برخاست ہو گئی، میں گھر پہنچ چکی تھی، لیکن لفظ پربھوداسی اب بھی میرا تعاقب کرتا نظر آیا۔ یہ لفظ شاید میرے ذہن میں اس لئے اٹک گیا تھا کہ میں نے آج تک اس کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔
گھر پہنچتے ہیں میں نے سوچا کیوں نہ پربھو داسیوں کے بارے میں تحقیق کی جائے اور دیکھا جائے کہ اصل میں یہ روایت کیا ہے اور سیکولر بھارت کیوں اس حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہورہا ہے؟
ریسرچ شروع کی، کچھ مطالعہ کیا تو پریشانی کی کیفیت کا شکار ہو گئی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں لڑکیوں کے ساتھ کس طرح کا ظلم و ستم ہو رہا ہے، وہ ملک جہاں بالی وڈ ہے، ہر سال سینکروں فلمیں بنتی ہیں، جمہوریت کا بول بالا ہے، شائیننگ اور انکریڈیبل انڈیا کے نعرے لگتے ہیں وہاں انسانیت کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ پربھو داسی نامی روایت پڑھ کر ایک لمحے کے لئے میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے، سوچ کر کانپ رہی تھی کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میں پاکستان میں پیدا ہوئی ہوں۔ نام نہاد سیکولر بھارت خواتین کے لئے غیر محفوظ ملکوں میں سے ایک ہے۔
Image result for devadasi
بھارت میں خواتین اور لڑکیوں کے لئے نارمل انداز میں زندگی گزارنا خطرناک ہی نہیں بلکہ خوفناک ہے۔ بھارت میں فرسودہ غلیظ رویات کا خاتمہ اس جدید دور میں بھی نہیں کیا جاسکا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، جبکہ بھارت میں آج بھی پربھوداسی نامی روایت کا بول بالا ہے۔ یہ غلیظ اور گھٹیا روایت ساتویں صدی کے درمیان پروان چڑھی۔ کچھ جاہل انسانوں اپنے مفادات کی خاطر غریب اور معصوم بچیوں کا جنسی استحصال کرنا شروع کیا۔
صدیوں سے جاری اس فرسودہ روایت کا پس منظر اور تاریخ کچھ یوں ہے کہ غریب نابالغ بچیوں اور لڑکیوں کو سماج کا ایک بدمعاش اور طاقتور گروہ مندر لے جاتا ہے، جہاں رسم و رواج کا گھناونا کھیل کھیلا جاتا ہے اور ان معصوم بچیوں کی شادی بھگوان سے کرائی جاتی ہے۔ غریب والدین کو پیسے بھی دیے جاتے ہیں اور ساتھ کہا جاتا ہے کہ ان کی بچیاں مقدس کام کے لئے چنی گئی ہیں، والدین بھی خوشی خوشی ان بچیوں کو گھٹیا لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ ان کی شادی بھگوان سے کروادی جاتی ہے جسے پٹوکاٹو کہا جاتا ہے۔ بچیاں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ کوئی پاکیزہ کام کرنے جارہی ہیں، اس لئے شروع شروع میں وہ خوش ہوتی ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ درندے انہیں کن گھناونے مقاصد کی تکیمل کے لئے یہاں لائے ہیں۔

بھگون کے ساتھ شادی کی رسم تو محض ایک دھوکا ہے! بھگوان سے شادی کا جھانسہ دے کر ان بچیوں کو سیکس ورکرز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے جسموں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، مندر کے نام پر ان بچیوں سے جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ مندر کا حصہ بننے کے بعد ماں باپ کا گھر ان کے لئے حرام ہوجاتا ہے، جب یہ بچیاں ادھیڑ عمر کو پہنچ جاتی ہیں تو پھر انہیں مندر سے بے دخل کردیا جاتا ہے، اب گلیاں، سڑکیں ان کا مقدر ہوتی ہیں اور اسی بدترین صورتحال کا شکار ہو کر یہ خواتین مر جاتی ہیں۔ ۔ ۔
دیوداسی بچیوں کو شروع شروع میں یہ تلقین کی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ جو مرد ہمبستری کرے، وہ ان مردوں کو ہر صورت خوش کریں۔ اس لئے یہ بچیاں رضامندی سے مردوں کے ساتھ ہمبستری کرتی ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو بچی غیر مرد کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گی، بھگوان اس سے ناراض ہو جائے گا اور وہ نرک میں جائے گی۔ تصوری کیجیئے کہ مذہب کو کس طرح کے غلیظ کاموں کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پربھو داسی بن کر معصوم پریاں سیکس سلیو کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اور یہ غلیظ کام وہ بغیر کسی معاوضے کے سرانجام دیتی ہیں۔ جب بچیاں ایڈز جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں تو انہیں مندر سے نکال دیا جاتا ہے، اس کے بعد وہ گلیوں اور سڑکوں پر بھیک مانگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
اندھے، گونگے اور بہرے سماج کی نگاہ میں یہ پربھوداسیاں قابل احترام ہوتی ہیں، لیکن حقیقت میں ان کے ساتھ وہ کچھ ہورہا ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے، اس مکروہ دھندے میں کوئی لڑکی جب حاملہ ہوجائے اور اسے بچہ پیدا ہو تو اس کے لئے یہ جرم ہے کہ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ بچے کا باپ کون ہے؟ جہالت کی انتہا دیکھیے کہ مندر میں منتیں مانی جاتیں ہیں کہ لڑکی پیدا ہو تاکہ اس کی شادی مندر کے بھگوان سے کی جائے۔ اس طرح اس مکروہ رواج کی آبیاری کی جاتی ہے۔
بھارت میں نسل در نسل پربھو_داسیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جب لڑکی عورت کا روپ اختیار کر لیتی ہے بھگوان کے بھگت اسے بوڑھی قرار دیتے ہیں۔ بیشتر دیوداسییا ں ایڈز جیسے موزی مرض کا شکار ہو کر مر جاتی ہیں۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق اسی موزی رواج کا شکار اکثر لڑکیوں کو دور دراز کے علاقوں میں فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی گھر پہنج جائے اور والدین کو حقیقی صورتحال کے بارے میں آگاہ کرے تو والدین بھی بچیوں کی کہانی کو جھوٹ سمجھتے ہیں اور انہیں اپنانے سے کتراتے ہیں۔
انڈین نیشنل ہیومن رائٹس آف کمیشن کے مطابق 2013 میں دیو داسیوں کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار تھی جو 2017 میں پچاس فیصد بڑھی ہے۔ زیادہ تر پربھوداسیاں آندھراپردیش، کرناٹکا اور مہاراشٹر میں ہیں۔ بھارت میں 20 سال پہلے اس روایت کے خاتمے کے لیے قانون متعارف کروایا گیا تھا، بہت سی ملکی و غیر ملکی این جی اوز بھی اس انسانیت دشمن رواج کے خلاف کام کررہی ہیں، اس کے باوجود ابھی تک شائیننگ انڈیا میں یہ کاروبار زوروں پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق دیوداسیوں کی عمر 11 سے 15 برس کے درمیان ہوتی ہے۔ بھارت کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین، بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ سب سے زیادہ جنسی استحصال کیا جات ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس روایت کا سہارا لے کر لاکھوں بچیوں کو بروتھل ہاوسز میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھارت بھر میں جنسی زیادتی کے تقریبا چالیس ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی درست تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ریپ کے کیس رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ بھارت میں جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کی خاطر ملکی قوانین کو سخت بنایا گیا ہے تاہم پھر بھی اس قدامت پسند معاشرے میں ریپ کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جرائم کے سدباب کی خاطر معاشرتی سطح پر شعور و آگاہی میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر تیسری عورت جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد کی شکار ہے۔ 27 فیصد 15 سال تک کی عمر کی لڑکیوں پر جسمانی تشدد کا انکشاف ہوا ہے۔ بھارت کے قومی فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 2017 میں دیہی اورشہری علاقوں کی 29 سے 23 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ سروے کے مطابق شادی شدہ 31 فیصد خواتین کو ان کے شوہر نے تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ 56 سے 15فیصد غیر شادی شدہ خواتین پر ان کے بھائی، سوتیلے باپ، سوتیلی ماں اور اساتذہ نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں جنسی زیادتی یعنی ریپ کے سب سے زیادہ کیسز صرف امریکہ میں درج ہوتے ہیں یعنی نمبر ون امریکہ جنسی زیادتی کے حوالے سے بھی نمبر ون ہے جبکہ دوسرے نمبر پر انڈیا ہے۔
بھارت جیسے معاشرے میں مظلوم عورت ویسے بھی شودروں سے بھی نچلے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ شاید یہ واحد معاشرہ ہے جہاں کسی عورت کے شوھر کے مرنے کے بعد عورت کو بھی ستی کر دیا جاتا ہے یعنی مرد کی لاش کے ساتھ ہی عورت کو بھی زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی منفرد معاشرہ ہے کہ جہاں عورت کو کتوں بندروں اور دوسرے جانوروں کے ساتھ بیاہ دینے کا رواج ہے یعنی عورت کی عزت اس جانور جتنی بھی نہیں ہوتی جس کے ساتھ اس بیچاری کی شادی کی جاتی ہے ایسے معاشرے میں ریپ کو کوئی جرم نہ سمجھا جائے تو یہ حیرانگی کی بات نہیں۔
اگر دنیا کے انسانوں میں تھوڑی سی بھی اخلاقی قوت ہو تو وہ خواتین، بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔
 فروا وحید

Monday, June 11, 2018

دوغلا پن

Image result for dual face


دوغلا پن
٭٭٭



چند روز ہوئے… کسی کام سے ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ کھڑکیوں پر سائلین کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ ہم بھی اپنی متعلقہ کھڑکی پر لگی قطار میں جا کھڑے ہوئے… سرکاری اہلکار کی روایتی سستی کے باعث قطار چیونٹی کی رفتار سے سرک رہی تھی۔ لوگوں کے چہروں سے بے زاری اور اکتاہٹ گویا ٹپک رہی تھی۔ وہ وقفے وقفے سے کھڑکی کی جانب دیکھتے اور کسمسا کر رہ جاتے، جہاں کلرک بادشاہ اپنے کسی دوست سے گپیں ہانکتے، دورانِ گفتگو بلند آہنگ قہقہے بکھیرتے تھے… اور گاہے اپنے کام پر کچھ توجہ دے لیتے تھے۔
اسی اثنا میں ایک سرتاپا فیشن میں غرق خاتون کی تشریف آوری ہوئی، جن کے ظاہر سے اُن کی ’’روشن خیالی‘‘ پوری طرح عیاں تھی۔ موصوفہ قطار کو یکسر نظر انداز کرتی براہ ِراست کھڑکی پر حملہ آور ہو گئیں۔ کلرک بادشاہ کی میلی بے نورسی آنکھوں میں جیسے ہزار وولٹ کے بلب روشن ہو گئے ہوں، فوراً ریشہ خطمی ہو گئے۔
قطار میں موجود ایک ناتواں ضعیف بزرگ… کہ جن کا قطار میں کھڑا ہونا بھی دشوار نظرآتا تھا، بول پڑے:’’لیجیے… ابھی دو بغیر قطار اپنے کام کروا کر جا چکیں، اب ایک اور آ گئیں… ہم تو جیسے بے وقوف ہیں کہ گھنٹہ بھر سے قطار میں کھڑے خوار ہو رہے ہیں…!‘‘
خاتون نے ایک نگاہِ خشمگیں بزرگوار پر ڈالی… منھ بگاڑ کر کچھ بڑبڑائیں…کلرک بادشاہ نے کہ جن کی تمام تر فرض شناسی کا محور اب وہ خاتون تھیں، باآواز بلند اُن کی ترجمانی ضروری سمجھی اور ڈپٹ کر کہا:
’’دوسروں کا نہیں تو اپنی عمر کا ہی خیال کر لو بڑے میاں… تمہارے گھر میں بھی بہو بیٹیاں ہوں گی… یہ بھی کسی کی بہن بیٹی ہیں… کیا ہو جائے گا اگر دو منٹ انتظار کر لو گے۔‘‘
’’بحمداللہ… ہمارے گھر میں بیٹیاں بھی ہیں، بہوئیں بھی اور بیوی بھی… مگر ہم ابھی اتنے ماڈرن اور روشن خیال نہیں ہوئے ہیں کہ اپنی گھر کی عزتوں کو یوں سڑکوں پر دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیں اور خود گھروں میں آرام فرماتے رہیں… صرف اِس لیے کہ دوسرے بے وقوفوں کی طرح قطار میں کھڑا نہ ہونا پڑ جائے… اور ہاں میاں یہ دو منٹ انتظار کرنے کی بھی خوب کہی… دس پندرہ منٹ سے تو قطار ٹس سے مس نہیں ہوئی کہ آپ کو ماشاءاللہ دوستیاں نبھانے سے ہی فرصت نہیں ہے… ایک جاتا نہیں کہ دوسرا آ جاتا ہے… لگتا ہے کہ دفتر نہیں، کمپنی باغ ہے… کوئی پندرہ منٹ پہلے دو خواتین کو دیکھ کر آپ کی رگِ فرض شناسی پھڑکی تھی، یا اب اِن محترمہ کے آنے سے آپ کو فرائض اور اخلاقیات کا دورہ پڑا ہے… ہم جو قطار میں لگے سڑ رہے ہیں، آپ کی نظر میں تو شاید انسان ہی نہیں ہیں۔‘‘
بڑے صاحب نے ایک منٹ میں کلرک بادشاہ کا نشۂ کلرکی ہرن کر کے رکھ دیا تھا… اُس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا… خاتون بھی دم بخود کھڑی تھیں…بزرگ خاموش ہوئے تو کلرک کی بدتمیزی پر قطار میں کھڑے کچھ اور لوگوں نے بھی اسے آڑے ہاتھوں لے لیا…اور وہ جو ٹھنڈے کمرے میں ابھی، اپنے زعم میں بادشاہ بنا بیٹھا تھا…فوراً بھیگی بلی بن گیا۔
اور ہم سوچ رہے تھے کہ مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے ہر وقت نعرے بلند کرنے اور ہر مردانہ رتبے کی حرص کرنے والی اِن آزاد خیال خواتین کو… عین مشقت کے وقت میں ہی اچانک اپنی نسوانیت کیوں یاد آ جاتی ہے… ذرا پسینہ بہا نہیں اور مساوات مرد و زن کا نعرۂ مستانہ ٹھس ہوا نہیں… آخر کیوں؟
یہ توکوئی انصاف کی بات نہ ہوئی نا… محض ہوشیاری اور موقع پرستی ہوئی کہ ایک طرف محکوم بھی نہیں بننا… بلکہ جو ’’قوّام‘‘ ہے، الٹا اسی پر حکومت کرنے کی چاہ ہے، اس کے سارے حقوق سارے مراتب خود اپنے لیے بھی طلب کرنے ہیں… مگرجہاں کمزوروں کے لیے مخصوص، "رعایتیں اور سہولتیں" لینے کا موقع آئے تو فوراً اپنی فطری کمزوری اور نسوانیت کی آڑ لے لی جائے اور پھر اس کا واویلا کر کے ساری رعایتیں حاصل کر لی جائیں…!
سچی بات ہے کہ یہ تو مغربی عورتوں کی تقلید بھی پوری طرح نہ ہوئی۔ وہ اگر مردوں کے شانہ بشانہ چلتی اور کام کرتی ہیں… مردوں کے لیے مخصوص تمغے، مردانہ وار سینے پر سجاتی ہیں… تو قدرت کی طرف سے دی گئی تمام نسوانی رعایتوں کا خیال بھی پھر گھر پر رکھ کر آتی ہیں… مشقت کے ہر وقت میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں اور اس پر واویلا بھی نہیں کرتیں کہ یہ راستہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے چنا ہے… مگر ہمارے ہاں…
ہمارے ہاں تو اس معاملے میں بھی شدید دوغلا پن ہے… مگر یہ دوغلا پن… پھر کہیں کسی دن… کسی قطار میں خجل خوار ہوتے… اپنے ہی پسینے میں نہائے ایک ناتواں وجود کی زبانی… یوں بیچ چوراہے میں اس طرح واضح کر دیا جاتا ہے کہ سننے والوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں…!
٭
محمد فیصل شہزاد

دنیا کی کم عمر ترین پاکستانی عالمی ریکارڈ ہولڈر

Image result for liba hanoi

دنیا کی سب سے کم عمر پاکستانی عالمی ریکارڈ ہولڈر

چھ سالہ لیبا وہاج اب سب سے چھوٹی پاکستانی گنیس ورلڈ ریکارڈ منعقد کرنے کے لئے ہے. لیبا نے ہنوئی کے سطح 6 ٹاور کو حل کرنے کے لئے تیز ترین وقت کے لئے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ 

ہنوئی ٹاور ایک ریاضیاتی کھیل ہے جس میں تین سلاخوں اور مختلف سائز کے کئی ڈسک شامل ہیں جو کسی بھی چھڑی میں سلائڈ کرسکتے ہیں. لیبا، معروف تعليمی ماہر وہاج حسین کی بیٹی نے اس کھیل کے آخری ریکارڈ کو توڑ دیا جو 2 منٹ اور 30 سیکنڈ تھا اور اسے صرف ایک منٹ اور 13 سیکنڈ میں حل کرنے میں مدد ملی تھی۔


ہم  لیبا وہاج کو سب سے کم عمر پاکستانی عالمی ریکارڈ ہولڈربننے کے لۓ گنیس عالمی ریکارڈ کو برقرار رکھنے اور ملک اور اس کے خاندان کو فخر دینے کے لۓ  مبارکباد دیتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس کی کامیابی سے زیادہ بچوں کو حوصلہ افزائی ملے گی اور اپنی صلاحیتوں کو دنیا میں ثابت کرے گی۔

Tuesday, June 5, 2018

ٹیکسٹ بک کیس آف این جی او فراڈ



ٹیکسٹ بک کیس آف این جی او فراڈ




تھری کپس آف ٹی، نامی نان فکشن کتاب پورے چار سال تک نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر رہی. یہ کتاب اب تک سینتالیس زبانوں میں شائع ہو چکی ہے- اسکا مصنف گریگ مورٹنسن ایک سابق امریکی فوجی اور کوہ پیما ہے- وہ پاکستان، افغانستان اور تاجکستان میں اسکولوں کے قیام کے لئے کام کرنے والی این جی او سنٹرل ایشین انسٹیٹیوٹ کے بانی اور سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہے- تیسری دنیا کے ان جنگ اور غربت زدہ خطوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے ترقی کے لئے کام کرنے پر مورٹنسن کو مسلسل تین سال تک نوبل پرائز کے لئے بھی نامزد کیا جاتا رہا- یاد رہے اس انسٹیٹیوٹ کو امداد دینے والوں میں امریکی صدر اوباما اور سلیکون ویلی کے بزنس اونرز سے لیکر امریکی عوام یہاں تک کہ بڑی تعداد میں پاکستانی بچوں سے انسانی ہمدردی سے رکھنے والے امریکی اسکولوں بچے تک تھے جنہوں نے اسکے قیام سے لیکر ٢٠١١ تک اسے سو ملین ڈالر سے زیادہ مالی عطیات دیئے- قارئین کی آسانی کے لئے ہم بتائیں کہ یہ رقم ایک ہزار کروڑ پاکستانی روپے بنتی ہے-

لیکن ٢٠١٠ کے اواخر میں امریکی چینل سی بی ایس کے ایک پروگرام، جوامریکی صحافی جان کراکر کی صحافیانہ تحقیقات پر مشتمل تھا، سے کچھ ایسے انکشافات سامنے آئے جن کے بعد امریکی ریاست مونٹانا کے اٹارنی جرنل کو گریگ کے خلاف از خود نوٹس لینا پڑا- یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ صحافی خود گریگ کی این جی او سی آئی ائے کو ماضی میں ٧٥٠٠٠ ڈالر کے مالی عطیات دی چکا تھا- اسکے علاوہ سابق امریکی صدر اوباما بھی سی آئی ائے کو اپنے نوبل پرائز کی رقم سے ایک لاکھ ڈالر عطیہ کر چکے تھے- گریگ پر جو الزامات تھے انکے مطابق پاکستن اور افغانستان میں موجود بہت سے اسکول جنکا انھوں نے اپنی ویب سائٹ پر کیا تھا اور جن کے لئے وہ امریکی عوام اور بچوں سے سالانہ بیس سے پچیس ملین ڈالر اکٹھا کر رہ اٹھے وہ سرے سے موجود ہی نہیں تھے- جو اسکول موجود تھے انکے بارے میں گاؤں والوں نے بتایا کہ انکی تعمیر کے لئے زمین، تعمیراتی سامان لکڑی وغیرہ، اور مفت مزدوری گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت فراہم کی- گریگ کی این جی او صرف اسٹیشنری کتابوں اور ٹیچرز کی تنخواہیں دیتی ہے-

ہم نے گریگ مورٹنسن سے انکا مؤقف جاننے کے لئے انکے فیس بک پیج اور کچھ مشترکہ دوستوں کے ذریعے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے تا حال کوئی جواب نہیں دیا - اگر کسی کا ان سے رابطہ ہے اور وہ اپنا موقف پیش کرنا چاہیں تو موسٹ ویلکم-
تزئین حسن 

Monday, June 4, 2018

انسان زمین کا ایلین ہے ۔



انسان زمین کا ایلین ہے ۔



نے اپنی کتاب میں تہلکہ خیز دعوی کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔
ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور آرکیالوجسٹ ھے اس کی کتاب میں اس کے الفاظ پر غور کیجئیے۔ زھن میں رھے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذھب پر یقین نہیں رکھتا۔
اس کا کہنا ھے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رھتا رھا ھے وہ سیارہ ، وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ھے وہاں پر انسان بہت ھی نرم و نازک ماحول میں رھتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ھوتا ھے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہین کرنا پڑتا تھا ، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی ۔ ۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رھتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باھر اور تکلیف دہ ھوتی ہیں۔
تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی ۔۔
اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا ۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا ۔۔۔ وہ جسے چاہتا ، جس سیارے پر چاہتا ، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔
ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ھے ۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے ۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ھے ، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔
Image may contain: mountain, nature and outdoor
ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے ۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔
اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ھے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔
نمبر ایک ۔ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی ، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے ۔
نمبر دو ؛انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ھر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے ۔
نمبر تین ؛ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ھے مہینوں دھوپ میں رھنے کے باوجود جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔
نمبر چار ؛ ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔
نمبر پانچ زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ھے۔
نمبر چھ ؛انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔
انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی ۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رھتا ھے۔جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پرتعیش بستر پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لئے اب بھی کوشش کرتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکوں۔ جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات مکانات اسے وہاں اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جبکہ باقی سب جانور اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رھنے کی۔ انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کر خونخوار ہوگیا۔ جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی ۔۔یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا تاکہ اپنی سزا کا دورانیہ گزار کر واپس آ جائے ۔ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہاہے ، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے ، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں ، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔
ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔۔
میں اس کے سائنسی دلائل اور مفرو ضوں پر غور کر رہا تھا۔۔ یہ کہانی ایک سائنسدان بیان کر رہا ھے یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ میں اس پر اس لئے تفصیل نہیں لکھوں گا کیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم ؑ اور حوا ؑ کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے ۔۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ھوگئے ہیں جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے ۔ میں نے نسل انسانی پر لکھنا شروع کیا تھا۔ اب اس تحریر کے بعد میں اس سلسلے کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکوں گا۔۔
ارتقاء کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ھے ۔۔ یہ سیارہ ہمارا نہین ہے ۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیشمار بار بتا دیا تھا۔ اللہ پاک نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بھی بار بار لاتعداد مرتبہ یہی بتا دیا کہ اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے ۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی ۔
#منقول