یہ ہے الیکٹرانک میڈیا اور انکے مالکان کا اصلی چہرہ
ضیاء شاہد ایک سکول ٹیچر سے ینگ بچیوں کی سپلائی مانگ رہے ہیں پوری زمہ داری سے پوسٹ کر رہا ہوں یہ آڈیو ہر طرح سے اصلی ہے اور اس گھٹیا شخص کا روپ بھی اصلی ہے۔
یہی لوگ ہیں جو اپنے چینلز اور اخبارات میں اخلاقیات پہ بھاشن دیتے ہیں اور چائیلڈ ابیوز کے خلاف بولتے ہوئے منہ سے تھوک برسا رہے ہوتے ہیں ۔
دو گھنٹے سے ہر طرح سے تسلی کرکے پوسٹ لگا رہا ہوں اس جنسی درندے کو بےنقاب کریں اب دیکھتے ہیں کونسا ارادہ اسکے خلاف ایکشن لیتا ہے
کون سا جج سو موٹو لیتا ہے
کونسا اینکر اس سکینڈل پر پروگرام کرتا ہے
کونسے دانشور آرٹیکل لکھتے ہیں
اور کون ایسے گھٹیا اور غلیظ لوگوں کے غلاف آواز بلند کرتا ہے
اگر ہر طرف خاموشی ہی رہی تو ہمیں بھی اب حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہم آخر چاہتے کیا ہیں؟
سیاستدان اور ڈکٹیٹرز قومی سطح پر وطن کی بیٹیاں بیچتے بیچ رہے ہیں
صحافی دلالی کررہے ہیں
قوم ٹھرک جھاڑ رہی ہے
بچیوں کی لاشیں کوڑے کے ڈھیر اور کھیتوں سے مل رہی ہیں
پانچ سال سے پچاسی سالہ عورتوں کے ریپ ہو رہے ہیں
کم سن بچوں کو ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں نشانہ بنایا جارہا ہے
پوری قوم یا تو دلال ہے یا گاہک یا مال یا پھر بے غیرت بن کر خاموش بیٹھے ہیں
امت کہاں ہے؟
کہاں ہے قائد کا پاکستان؟
اگر یہی حال رہا تو ایک بات کان کھول کر سن لیں آج کا دردمند دل رکھنے والا نوجوان جتنا دلبرداشتہ ہوچکا ہے کوئی نا کوئی چن چڑھ کے ہی رہے گا۔
خدارا اس خنزیر کو فلفور گرفتار کرکے تفتیش کا آغاز کیا جائے یہ اب تک کتنی بچیوں کی عزت تار تار کرچکا ہے۔
اگر ایسا نہی ہوتا تو ضیاء شاید تیار رہے ہم خود سوموٹو لینگے۔ سوشل میڈیا اسکو کڑی ٹکر دے گا
اگر اس عورت نے آڈیو وائیرل کرکے دبنگ کام کیا ہے تو ہم اسکے ساتھ ہیں یہ جنسی درندہ بچ نہی پائے گا انشاءاللہ
بقلم برادر عمران حیدر
No comments:
Post a Comment