دوغلا پن
٭٭٭
چند روز ہوئے… کسی کام سے ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ کھڑکیوں پر سائلین کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ ہم بھی اپنی متعلقہ کھڑکی پر لگی قطار میں جا کھڑے ہوئے… سرکاری اہلکار کی روایتی سستی کے باعث قطار چیونٹی کی رفتار سے سرک رہی تھی۔ لوگوں کے چہروں سے بے زاری اور اکتاہٹ گویا ٹپک رہی تھی۔ وہ وقفے وقفے سے کھڑکی کی جانب دیکھتے اور کسمسا کر رہ جاتے، جہاں کلرک بادشاہ اپنے کسی دوست سے گپیں ہانکتے، دورانِ گفتگو بلند آہنگ قہقہے بکھیرتے تھے… اور گاہے اپنے کام پر کچھ توجہ دے لیتے تھے۔
اسی اثنا میں ایک سرتاپا فیشن میں غرق خاتون کی تشریف آوری ہوئی، جن کے ظاہر سے اُن کی ’’روشن خیالی‘‘ پوری طرح عیاں تھی۔ موصوفہ قطار کو یکسر نظر انداز کرتی براہ ِراست کھڑکی پر حملہ آور ہو گئیں۔ کلرک بادشاہ کی میلی بے نورسی آنکھوں میں جیسے ہزار وولٹ کے بلب روشن ہو گئے ہوں، فوراً ریشہ خطمی ہو گئے۔
قطار میں موجود ایک ناتواں ضعیف بزرگ… کہ جن کا قطار میں کھڑا ہونا بھی دشوار نظرآتا تھا، بول پڑے:’’لیجیے… ابھی دو بغیر قطار اپنے کام کروا کر جا چکیں، اب ایک اور آ گئیں… ہم تو جیسے بے وقوف ہیں کہ گھنٹہ بھر سے قطار میں کھڑے خوار ہو رہے ہیں…!‘‘
خاتون نے ایک نگاہِ خشمگیں بزرگوار پر ڈالی… منھ بگاڑ کر کچھ بڑبڑائیں…کلرک بادشاہ نے کہ جن کی تمام تر فرض شناسی کا محور اب وہ خاتون تھیں، باآواز بلند اُن کی ترجمانی ضروری سمجھی اور ڈپٹ کر کہا:
’’دوسروں کا نہیں تو اپنی عمر کا ہی خیال کر لو بڑے میاں… تمہارے گھر میں بھی بہو بیٹیاں ہوں گی… یہ بھی کسی کی بہن بیٹی ہیں… کیا ہو جائے گا اگر دو منٹ انتظار کر لو گے۔‘‘
’’بحمداللہ… ہمارے گھر میں بیٹیاں بھی ہیں، بہوئیں بھی اور بیوی بھی… مگر ہم ابھی اتنے ماڈرن اور روشن خیال نہیں ہوئے ہیں کہ اپنی گھر کی عزتوں کو یوں سڑکوں پر دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیں اور خود گھروں میں آرام فرماتے رہیں… صرف اِس لیے کہ دوسرے بے وقوفوں کی طرح قطار میں کھڑا نہ ہونا پڑ جائے… اور ہاں میاں یہ دو منٹ انتظار کرنے کی بھی خوب کہی… دس پندرہ منٹ سے تو قطار ٹس سے مس نہیں ہوئی کہ آپ کو ماشاءاللہ دوستیاں نبھانے سے ہی فرصت نہیں ہے… ایک جاتا نہیں کہ دوسرا آ جاتا ہے… لگتا ہے کہ دفتر نہیں، کمپنی باغ ہے… کوئی پندرہ منٹ پہلے دو خواتین کو دیکھ کر آپ کی رگِ فرض شناسی پھڑکی تھی، یا اب اِن محترمہ کے آنے سے آپ کو فرائض اور اخلاقیات کا دورہ پڑا ہے… ہم جو قطار میں لگے سڑ رہے ہیں، آپ کی نظر میں تو شاید انسان ہی نہیں ہیں۔‘‘
بڑے صاحب نے ایک منٹ میں کلرک بادشاہ کا نشۂ کلرکی ہرن کر کے رکھ دیا تھا… اُس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا… خاتون بھی دم بخود کھڑی تھیں…بزرگ خاموش ہوئے تو کلرک کی بدتمیزی پر قطار میں کھڑے کچھ اور لوگوں نے بھی اسے آڑے ہاتھوں لے لیا…اور وہ جو ٹھنڈے کمرے میں ابھی، اپنے زعم میں بادشاہ بنا بیٹھا تھا…فوراً بھیگی بلی بن گیا۔
اور ہم سوچ رہے تھے کہ مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے ہر وقت نعرے بلند کرنے اور ہر مردانہ رتبے کی حرص کرنے والی اِن آزاد خیال خواتین کو… عین مشقت کے وقت میں ہی اچانک اپنی نسوانیت کیوں یاد آ جاتی ہے… ذرا پسینہ بہا نہیں اور مساوات مرد و زن کا نعرۂ مستانہ ٹھس ہوا نہیں… آخر کیوں؟
یہ توکوئی انصاف کی بات نہ ہوئی نا… محض ہوشیاری اور موقع پرستی ہوئی کہ ایک طرف محکوم بھی نہیں بننا… بلکہ جو ’’قوّام‘‘ ہے، الٹا اسی پر حکومت کرنے کی چاہ ہے، اس کے سارے حقوق سارے مراتب خود اپنے لیے بھی طلب کرنے ہیں… مگرجہاں کمزوروں کے لیے مخصوص، "رعایتیں اور سہولتیں" لینے کا موقع آئے تو فوراً اپنی فطری کمزوری اور نسوانیت کی آڑ لے لی جائے اور پھر اس کا واویلا کر کے ساری رعایتیں حاصل کر لی جائیں…!
سچی بات ہے کہ یہ تو مغربی عورتوں کی تقلید بھی پوری طرح نہ ہوئی۔ وہ اگر مردوں کے شانہ بشانہ چلتی اور کام کرتی ہیں… مردوں کے لیے مخصوص تمغے، مردانہ وار سینے پر سجاتی ہیں… تو قدرت کی طرف سے دی گئی تمام نسوانی رعایتوں کا خیال بھی پھر گھر پر رکھ کر آتی ہیں… مشقت کے ہر وقت میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں اور اس پر واویلا بھی نہیں کرتیں کہ یہ راستہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے چنا ہے… مگر ہمارے ہاں…
ہمارے ہاں تو اس معاملے میں بھی شدید دوغلا پن ہے… مگر یہ دوغلا پن… پھر کہیں کسی دن… کسی قطار میں خجل خوار ہوتے… اپنے ہی پسینے میں نہائے ایک ناتواں وجود کی زبانی… یوں بیچ چوراہے میں اس طرح واضح کر دیا جاتا ہے کہ سننے والوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں…!
٭
محمد فیصل شہزاد
No comments:
Post a Comment