بھارت کی شرمناک رسم کی داستان
کچھ خوفناک اعداد و شمار !
کچھ روز پہلے ایک دوست کے گھر محفل سجی، جس میں پاکستانی سیاست و سماج کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی عالمی پالیسیوں پر بھی بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ علمی و فکر سے مزین نشست کے دوران پربھوداسی نظریئے پر بھی بحث کی گئی، اس حوالے سے دوستوں نے بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ گفتگو کے دوران کہا گیا کہ روشن اور سیکولر بھارت میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی بچیاں بھی ہیں جنہیں پربھوداسیاں کہا جاتا ہے، جو خوفناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ محفل برخاست ہو گئی، میں گھر پہنچ چکی تھی، لیکن لفظ پربھوداسی اب بھی میرا تعاقب کرتا نظر آیا۔ یہ لفظ شاید میرے ذہن میں اس لئے اٹک گیا تھا کہ میں نے آج تک اس کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔
گھر پہنچتے ہیں میں نے سوچا کیوں نہ پربھو داسیوں کے بارے میں تحقیق کی جائے اور دیکھا جائے کہ اصل میں یہ روایت کیا ہے اور سیکولر بھارت کیوں اس حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہورہا ہے؟
ریسرچ شروع کی، کچھ مطالعہ کیا تو پریشانی کی کیفیت کا شکار ہو گئی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں لڑکیوں کے ساتھ کس طرح کا ظلم و ستم ہو رہا ہے، وہ ملک جہاں بالی وڈ ہے، ہر سال سینکروں فلمیں بنتی ہیں، جمہوریت کا بول بالا ہے، شائیننگ اور انکریڈیبل انڈیا کے نعرے لگتے ہیں وہاں انسانیت کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ پربھو داسی نامی روایت پڑھ کر ایک لمحے کے لئے میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے، سوچ کر کانپ رہی تھی کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میں پاکستان میں پیدا ہوئی ہوں۔ نام نہاد سیکولر بھارت خواتین کے لئے غیر محفوظ ملکوں میں سے ایک ہے۔
ریسرچ شروع کی، کچھ مطالعہ کیا تو پریشانی کی کیفیت کا شکار ہو گئی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں لڑکیوں کے ساتھ کس طرح کا ظلم و ستم ہو رہا ہے، وہ ملک جہاں بالی وڈ ہے، ہر سال سینکروں فلمیں بنتی ہیں، جمہوریت کا بول بالا ہے، شائیننگ اور انکریڈیبل انڈیا کے نعرے لگتے ہیں وہاں انسانیت کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ پربھو داسی نامی روایت پڑھ کر ایک لمحے کے لئے میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے، سوچ کر کانپ رہی تھی کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میں پاکستان میں پیدا ہوئی ہوں۔ نام نہاد سیکولر بھارت خواتین کے لئے غیر محفوظ ملکوں میں سے ایک ہے۔
بھارت میں خواتین اور لڑکیوں کے لئے نارمل انداز میں زندگی گزارنا خطرناک ہی نہیں بلکہ خوفناک ہے۔ بھارت میں فرسودہ غلیظ رویات کا خاتمہ اس جدید دور میں بھی نہیں کیا جاسکا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، جبکہ بھارت میں آج بھی پربھوداسی نامی روایت کا بول بالا ہے۔ یہ غلیظ اور گھٹیا روایت ساتویں صدی کے درمیان پروان چڑھی۔ کچھ جاہل انسانوں اپنے مفادات کی خاطر غریب اور معصوم بچیوں کا جنسی استحصال کرنا شروع کیا۔
صدیوں سے جاری اس فرسودہ روایت کا پس منظر اور تاریخ کچھ یوں ہے کہ غریب نابالغ بچیوں اور لڑکیوں کو سماج کا ایک بدمعاش اور طاقتور گروہ مندر لے جاتا ہے، جہاں رسم و رواج کا گھناونا کھیل کھیلا جاتا ہے اور ان معصوم بچیوں کی شادی بھگوان سے کرائی جاتی ہے۔ غریب والدین کو پیسے بھی دیے جاتے ہیں اور ساتھ کہا جاتا ہے کہ ان کی بچیاں مقدس کام کے لئے چنی گئی ہیں، والدین بھی خوشی خوشی ان بچیوں کو گھٹیا لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ ان کی شادی بھگوان سے کروادی جاتی ہے جسے پٹوکاٹو کہا جاتا ہے۔ بچیاں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ کوئی پاکیزہ کام کرنے جارہی ہیں، اس لئے شروع شروع میں وہ خوش ہوتی ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ درندے انہیں کن گھناونے مقاصد کی تکیمل کے لئے یہاں لائے ہیں۔
بھگون کے ساتھ شادی کی رسم تو محض ایک دھوکا ہے! بھگوان سے شادی کا جھانسہ دے کر ان بچیوں کو سیکس ورکرز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے جسموں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، مندر کے نام پر ان بچیوں سے جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ مندر کا حصہ بننے کے بعد ماں باپ کا گھر ان کے لئے حرام ہوجاتا ہے، جب یہ بچیاں ادھیڑ عمر کو پہنچ جاتی ہیں تو پھر انہیں مندر سے بے دخل کردیا جاتا ہے، اب گلیاں، سڑکیں ان کا مقدر ہوتی ہیں اور اسی بدترین صورتحال کا شکار ہو کر یہ خواتین مر جاتی ہیں۔ ۔ ۔
دیوداسی بچیوں کو شروع شروع میں یہ تلقین کی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ جو مرد ہمبستری کرے، وہ ان مردوں کو ہر صورت خوش کریں۔ اس لئے یہ بچیاں رضامندی سے مردوں کے ساتھ ہمبستری کرتی ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو بچی غیر مرد کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گی، بھگوان اس سے ناراض ہو جائے گا اور وہ نرک میں جائے گی۔ تصوری کیجیئے کہ مذہب کو کس طرح کے غلیظ کاموں کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پربھو داسی بن کر معصوم پریاں سیکس سلیو کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اور یہ غلیظ کام وہ بغیر کسی معاوضے کے سرانجام دیتی ہیں۔ جب بچیاں ایڈز جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں تو انہیں مندر سے نکال دیا جاتا ہے، اس کے بعد وہ گلیوں اور سڑکوں پر بھیک مانگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
اندھے، گونگے اور بہرے سماج کی نگاہ میں یہ پربھوداسیاں قابل احترام ہوتی ہیں، لیکن حقیقت میں ان کے ساتھ وہ کچھ ہورہا ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے، اس مکروہ دھندے میں کوئی لڑکی جب حاملہ ہوجائے اور اسے بچہ پیدا ہو تو اس کے لئے یہ جرم ہے کہ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ بچے کا باپ کون ہے؟ جہالت کی انتہا دیکھیے کہ مندر میں منتیں مانی جاتیں ہیں کہ لڑکی پیدا ہو تاکہ اس کی شادی مندر کے بھگوان سے کی جائے۔ اس طرح اس مکروہ رواج کی آبیاری کی جاتی ہے۔
بھارت میں نسل در نسل پربھو_داسیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جب لڑکی عورت کا روپ اختیار کر لیتی ہے بھگوان کے بھگت اسے بوڑھی قرار دیتے ہیں۔ بیشتر دیوداسییا ں ایڈز جیسے موزی مرض کا شکار ہو کر مر جاتی ہیں۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق اسی موزی رواج کا شکار اکثر لڑکیوں کو دور دراز کے علاقوں میں فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی گھر پہنج جائے اور والدین کو حقیقی صورتحال کے بارے میں آگاہ کرے تو والدین بھی بچیوں کی کہانی کو جھوٹ سمجھتے ہیں اور انہیں اپنانے سے کتراتے ہیں۔
انڈین نیشنل ہیومن رائٹس آف کمیشن کے مطابق 2013 میں دیو داسیوں کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار تھی جو 2017 میں پچاس فیصد بڑھی ہے۔ زیادہ تر پربھوداسیاں آندھراپردیش، کرناٹکا اور مہاراشٹر میں ہیں۔ بھارت میں 20 سال پہلے اس روایت کے خاتمے کے لیے قانون متعارف کروایا گیا تھا، بہت سی ملکی و غیر ملکی این جی اوز بھی اس انسانیت دشمن رواج کے خلاف کام کررہی ہیں، اس کے باوجود ابھی تک شائیننگ انڈیا میں یہ کاروبار زوروں پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق دیوداسیوں کی عمر 11 سے 15 برس کے درمیان ہوتی ہے۔ بھارت کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین، بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ سب سے زیادہ جنسی استحصال کیا جات ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس روایت کا سہارا لے کر لاکھوں بچیوں کو بروتھل ہاوسز میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھارت بھر میں جنسی زیادتی کے تقریبا چالیس ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی درست تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ریپ کے کیس رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ بھارت میں جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کی خاطر ملکی قوانین کو سخت بنایا گیا ہے تاہم پھر بھی اس قدامت پسند معاشرے میں ریپ کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جرائم کے سدباب کی خاطر معاشرتی سطح پر شعور و آگاہی میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر تیسری عورت جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد کی شکار ہے۔ 27 فیصد 15 سال تک کی عمر کی لڑکیوں پر جسمانی تشدد کا انکشاف ہوا ہے۔ بھارت کے قومی فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 2017 میں دیہی اورشہری علاقوں کی 29 سے 23 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ سروے کے مطابق شادی شدہ 31 فیصد خواتین کو ان کے شوہر نے تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ 56 سے 15فیصد غیر شادی شدہ خواتین پر ان کے بھائی، سوتیلے باپ، سوتیلی ماں اور اساتذہ نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں جنسی زیادتی یعنی ریپ کے سب سے زیادہ کیسز صرف امریکہ میں درج ہوتے ہیں یعنی نمبر ون امریکہ جنسی زیادتی کے حوالے سے بھی نمبر ون ہے جبکہ دوسرے نمبر پر انڈیا ہے۔
بھارت جیسے معاشرے میں مظلوم عورت ویسے بھی شودروں سے بھی نچلے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ شاید یہ واحد معاشرہ ہے جہاں کسی عورت کے شوھر کے مرنے کے بعد عورت کو بھی ستی کر دیا جاتا ہے یعنی مرد کی لاش کے ساتھ ہی عورت کو بھی زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی منفرد معاشرہ ہے کہ جہاں عورت کو کتوں بندروں اور دوسرے جانوروں کے ساتھ بیاہ دینے کا رواج ہے یعنی عورت کی عزت اس جانور جتنی بھی نہیں ہوتی جس کے ساتھ اس بیچاری کی شادی کی جاتی ہے ایسے معاشرے میں ریپ کو کوئی جرم نہ سمجھا جائے تو یہ حیرانگی کی بات نہیں۔
اگر دنیا کے انسانوں میں تھوڑی سی بھی اخلاقی قوت ہو تو وہ خواتین، بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔
فروا وحید
No comments:
Post a Comment