Wednesday, June 27, 2018

اونٹ کا پیشاب پینا اور اسلامی احکامات


کیا اسلام میں اونٹ کا پیشاب پینا جائز ہے؟

==========================


Image result for camel pee

یہ سوال ممکن ہے ہمارے ان قارئین کیلئے تو عجیب ہو جو اس مضمون پر موجود معروف حدیث سے ناواقف ہیں. مگر یہ سوال ان احباب کیلئے نیا نہیں ہے جو متعلقہ حدیث اور اس سے منسلک علمی مباحث سے واقفیت رکھتے ہیں. قبل اسکے کہ مضمون کی گہرائی میں اترا جائے، صحیح بخاری و مسلم کی متفقہ علیہ اس حدیث کو پڑھنا ضروری ہے. "حضرت قتادہؒ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (عرینہ کے) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے یہاں چلے جائیں، یعنی اونٹوں کے پاس اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کرنے کے لئے بھیجا۔ جب انہیں لایا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔ (صحیح بخاری ۔ باب الدواء بابوال الابل)"
.
جان لیں کہ مذکورہ بالا حدیث اور اسی واقعہ سے متعلق دیگر کئی احادیث روایت کے اعتبار سے صحیح ہیں اور ان کی صحت میں محدثانہ اصولوں کے مطابق ضعف نہیں پایا جاتا. لہٰذا مسلمانوں کے علماء میں اس روایت یا واقعہ کے سچ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے. البتہ اسکی تشریح و تفسیر میں بہت سا اختلاف موجود رہا ہے، جس کا ہم اس مضمون میں ان شاء اللہ جائزہ لیں گے. یہ حقیقت ہے کہ درج بالا حدیث کو پڑھ کر اہل علم کے ایک طبقے نے اونٹ کے پیشاب کو جائز یا پاک مان لیا. مگر یہ بھی سچ ہے کہ جید علماء کے دوسرے طبقے نے اس سمجھ کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ اس پر علمی تنقید کرکے غلطی کو واضح بھی کردیا ہے. ہم اسی دوسری رائے کے علمبردار ہیں. یہ معاملہ عجیب ہے کہ کچھ احباب ایک طرف تو اس حدیث کو بنیاد بنا کر اونٹ کا پیشاب پینا درست سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اکثر ہندوؤں کے گائے موتر (پیشاب) پینے پر تحقیری جملے کس رہے ہوتے ہیں. یہ کیسا دہرا میعار ہے؟ جہاں اونٹ کا پیشاب پینا آپ کو بلکل معیوب نہ لگے مگر گائے کا پیشاب پیتے دیکھنا گھن کا سبب بن جائے؟ اونٹ کے پیشاب پینے کے قائلین اسکی افادیت کو بیان کرتی کچھ سائنسی تحقیقات بھی پیش کرتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح ہندو دھرم کے حاملین گائے موتر پینے کے بیشمار فوائد سے متعلق سائنسی ریسرچز کا حوالہ دیتے ہیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ اونٹ کے پیشاب پر شائع ہوئی 'سائنسی' تحقیقات اکثر عرب میں ہوا کرتی ہیں جبکہ گائے کے پیشاب پر پبش سائنسی ریسرچز اکثر انڈیا میں انجام پاتی ہیں. صاف ظاہر ہے کہ یہ نام کی تحقیقات دراصل اپنے پہلے سے قائم کردہ نتیجے کو صحیح ثابت کرنے کی سعی ہوا کرتی ہیں. یہ بلکل ممکن ہے کہ ان دونوں جانوروں کے پیشاب میں کچھ ایسے کیمکلز ہوں جو کسی درجے انسانی صحت میں معاون ہوسکیں. مگر پھر بات ان ہی جانوروں کے پیشاب تک نہیں رہے گی بلکہ دیگر جانوروں کے فضلہ، شراب، منشیات یا دیگر نجس و حرام اشیاء کے اجزاء اور کیمکل ساخت تک بھی جائے گی. جو اپنے حرام و نجس ہونے کے باوجود مختلف صورتوں میں انسانی صحت کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں یا ہوتے ہیں. چنانچہ ایسی کوئی دلیل پیش کرکے اونٹ کے پیشاب کے قصیدے پڑھنا کسی طور درست نہیں۔ یہ اور بات کہ نہ اونٹ کا پیشاب پینا قران حکیم میں درج ہے اور نہ ہی گائے کا پیشاب پینا ہندوؤں کے نمائندہ صحائف میں مذکور ہے.

Image result for camel milk.
اسلام کی تعلیمات جو سراسر طہارت و پاکیزگی پر مبنی ہیں، اس میں کسی جانور کے پیشاب کو پینے کا حکم ہونا اسلام کی عمومی تعلیمات و روح کے یکسر خلاف محسوس ہوتا ہے. پیشاب سے کسی بھی سلیم فطرت انسان کا کراہت اور گریز کرنا لازم ہے. دھیان رہے کہ جہاں کچھ فقہاء درج بالا حدیث کی تشریح میں اونٹ کے پیشاب کا پینا جائز مانتے ہیں، وہاں امام ابو حنیفہ رح، امام شافعی رح، امام ابو یوسف رح، امام سفیان ثوریؒ اور دیگر جبال فقہاء اونٹ کے پیشاب کو نجس ہی کہتے ہیں. چنانچہ احناف جو برصغیر پاک و ہند میں اکثریت میں ہیں، ان کے یہاں اس کا استعمال جائز نہیں. ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی یہی رائے ہے (گو ان کی یہی رائے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے. اسکے برعکس رائے بھی ان سے منسوب کی جاتی ہے). دیگر صریح نصوص احادیث مبارکہ میں ایسے موجود ہیں جن میں واضح طور پر پیشاب کو نجس بتایا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے. نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی انسان یا جانور کے پیشاب کی کسی درجے میں بھی تخصیص نہیں کی۔ جیسے ارشاد پاک ہے "پیشاب سے بچو کیونکہ عمومی طور پر قبر کا عذاب پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔" (مستدرک حاکم، ابن ماجہ، دار قطنی، صحیح ابن خزیمہ) اسی طرح دوسری دلیل مسند امام احمد میں مذکور ہے کہ دفن کے بعد میت کو قبر نے زور سے بھینچا اور دبایا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عذاب ان کا پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے تھا۔ گویا متعدد احادیث صحیحہ سے پیشاب کا بلا تفریق نجس و ناپاک ہونا ثابت ہوتا ہے. اس امر پر بھی غور کیجیئے کہ کئی طیب غذائیں ایسی ہیں جن کو شفاء کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو استعمال کی تلقین کی جیسے کھجور، شہد، کلونجی، دودھ وغیرہ. اسی طرح حجامہ جیسے طریق علاج کا ذکر صراحت سے ہم سب کیلئے موجود ہے. اسکے برعکس اونٹ کے پیشاب کی کوئی فضیلت یا عوام الناس کو اسکے استعمال کی کوئی ترغیب احادیث میں موجود نہیں ہے. بس یہی ایک مبہم سا واقعہ اس ضمن میں بیان ہوتا ہے. اب اس مقام پر ضروری ہے کہ ہم زیر گفتگو حدیث کے الفاظ و مضمون پر بات کریں اور ممکنہ زاویوں یا امکانات سے اس خبر احد کو سمجھنے کی کوشش کریں. 
.
١. جس سخت تکلیف یا وبائی مرض میں اس قبیلے کے افراد مبتلا ہوئے تھے، کیا معلوم وہ اس نوعیت کا ہو جس کی کوئی طیب دوا موجود نہ ہو؟ اس طرح یہ لوگ مضطر کے حکم میں آگئے اور مضطر کے لئے نجس چیز کا استعمال جائز ہے۔ یعنی اگر کسی انسان کی جان خطرہ میں ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے حرام چیز سے علاج کیا جاسکتا ہے. آج بھی اگر کسی جان لیوا بیماری کا کوئی طیب و حلال علاج میسر نہ ہو تو بطور علاج نجس و حرام اختیار کرنا جائز ہے. 
.
٢. حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی خاص وبائی بیماری کے 'علاج' کیلئے تھا. اس بیماری کی درست تفصیل ہمیں حاصل نہیں. کچھ کے نزدیک وہ پیٹ پھولنے اور خارش کا مرض تھا. اب جب ہمیں اس مرض کا ہی درست ادراک نہیں جسکے لئے اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کی بات کی جاتی ہے تو پھر آج اس نجس و حرام کو کسی اور بیماری کیلئے استعمال کرنا خلاف عقل و شریعت ہے. 
.
٣. جب اس پر بحث نہیں کہ یہ استعمال بیماری کے 'علاج' کے واسطے تھا تو پھر آج اسے سافٹ ڈرنک، شیمپو، صابن یا دیگر بیوٹی ٹریٹمنٹ کے طور پر بیچنا یا استعمال کرنا سمجھ سے بالاتر ہے. 
.
٤. حدیث کے مضمون سے آخری درجے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ مریض اندر سے منافق و فسادی تھے. لہٰذا شفاء یاب ہوتے ہی انہوں نے فساد یعنی قتل کیا اور ارتداد اختیار کرلیا. ایسے میں قوی تر امکان یہی ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کردیا ہو یا خاص ان ہی منافقین کیلئے پیشاب پینے کا حکم دیا ہو. ہم جانتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ وحی سے تائید حاصل رہتی تھی. اس امکان کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ اونٹ سمیت کسی بھی طرح کا پیشاب پینے کا حکم نہ اس واقعہ سے قبل کبھی بارگاہ رسالت سے صادر ہوا اور نہ ہی اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کو کوئی ایسی ترغیب ملی. 
.
٥. اکابر علماء میں ایک رائے یہ بھی رہی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب پینے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ اس کے خارجی استعمال کا حکم دیا تھااور اصل عبارت یوں تھیں: اشربوا من البانہا واضمدوا من ابوالہا۔ اضمدوا کے معنی ہیں لیپ چڑھانا۔ کچھ اہل علم عربی لغت اور زبان کے قاعدے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات جملے میں ایک بات کا عملی اطلاق بیان کرکے دوسری بات کا اطلاق یہ بھروسہ رکھتے ہوئے حذف کردیا جاتا ہے کہ سامع یا قاری اسے لازمی سمجھ لے گا. جیسے میں کہوں کہ 'وہاں کھانے کو لذیز پکوان ہیں اور مناظر' - اب سننے والا یہ بخوبی سمجھ لے گا کہ مناظر 'کھانے' کیلئے نہیں ہیں بلکہ دیکھنے کیلئے ہیں. اسی طرح زیر گفتگو حدیث میں جب الفاظ آئے " واﻣرھم ان ﯾﺷرﺑوا ﻣن اﻟﺑﺎﻧﮭﺎ وأﺑواﻟﮭﺎ" - "ان لوگوں کوانھوں نے کہا (وہاں جا کر ان اونٹنیوں کا)دودھ پی لیں اور پیشاب بھی۔" تو یہاں مراد پیشاب پینا نہیں بلکہ عرب میں رائج طریقہ علاج کے تحت اسے زخم پر لگانا ہے. 
.
٦. صحیح بخاری میں ہی اس حدیث سے قبل حضرت ثابت ؒ سے مروی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث بھی مذکور ہے جس میں ان حضرات کا علاج صرف دودھ سے مذکور ہے، اس حدیث میں پیشاب کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے. 
.
٧. رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہمارا دین سیکھانے آئے اور اونٹ کا پیشاب بطور علاج پینا کسی طور بھی دین میں شامل نہیں. اس اصول کو سمجھنے کیلئے ایک صحیح ترین حدیث پڑھیئے: "ام المؤمنین عائشہ اورصحابی رسول انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں فرمایا: ''یہ کیسی آوازیں ہیں؟'' صحابہ نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ کجھوروں کی پیوندکاری کررہے ہیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگریہ لوگ ایسانہ کریں تو بہترہے'' تو اس سال لوگوں نے کجھورکی پیوندکاری نہیں کی، جس کی وجہ سے اس سال کجھورکی فصل اچھی نہ ہوئی،تو لوگوں نے اس کاتذکرہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو تم اسے جس طرح چاہو انجام دو لیکن اگرتمہارے دین کا معاملہ ہو تو میری طرف رجوع کرو''َّ[مسند أحمد: 41/ 401 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]۔
.
Image result for camel pee
یہ وہ چند ممکنہ زاویئے و امکانات ہیں جو اہل علم نے اس حدیث کی تشریح میں بیان کیئے ہیں، جنہیں ہم نے قرین قیاس پایا ہے اور جنہیں مدنظر رکھ کر ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں. کچھ فقہاء جیسے امام مالک ؒ نے جو رائے اختیار کی ہے، اسکے مطابق جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے اور جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا اُن کا پیشاب ناپاک ہے۔ اس رائے کے استدلال میں وہ دو احادیث پیش کرتے ہیں. پہلی تو وہی جو اونٹ کے پیشاب کو بطور علاج استعمال کرنے سے متعلق ہے اور جس کی وضاحت اپر کی جاچکی ہے. جبکہ دوسری حدیث کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتے ہو۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر ان کا پیشاب ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت کیوں دیتے؟ یہ دلیل دیگر فقہاء کے سامنے خاصی کمزور ہے. اول تو حلال جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کو بھی اس حدیث کی بناء پر پاک و جائز کہنا سمجھ نہیں آتا. پھر اگر ایک لمحے کو اسے مان بھی لیں تو گوشت کھائے جانے والے جانوروں کے پائخانہ کو ناپاک اور ان کے پیشاب کو پاک قرار دینے کی وجہ سمجھ نہیں آتی. اب آجایئے اس دوسری حدیث پر جس میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو اسکے مکمل الفاظ یہ ہیں: صَلُّوا فِیْ مَرَابضِ الْغَنَمِ وَلَا تُصَلُّوا فِی اعْطَانِ الْاِبِل "بکریوں کے باڑہ میں نماز ادا کرلو لیکن اونٹوں کے باڑہ میں نماز ادا نہ کرو"۔اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بکریوں کا پیشاب عموماً دور دور نہیں جاتا ہے لہذا بکریوں کے باڑے میں تو کسی پاک وصاف جگہ نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اونٹ کا پیشاب دور دور تک بہتا ہے لہذا اونٹ کے باڑے میں پاک وصاف جگہ کا موجود ہونا دشوار ہے لہذا اونٹ کے باڑے میں نماز ادا نہ کرو۔ گویا اس حدیث سے امام ابو حنیفہ رح اور اس حوالے سے ان کے ہم خیال فقہاء کی رائے کا انکار ممکن نہیں. 
.
ایک اور اشکال و اعتراض جو اس حدیث کی آخری سطر سے پیدا ہوتا ہے، وہ ان افراد کا تشدد آمیز قتل ہے (ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔) اس کا جواب ایک دوسری حدیث سے ملتا ہے جس کے مطابق ان مرتدین و منافقین نے اونٹوں کے چرواہے کو اسی تشدد و ظلم سے قتل کیا تھا اور اسکی آنکھوں میں سلائی پھیر دی تھی. لہٰذا انہیں بھی بطور سزا ایسی ہی موت دی گئی اور آنکھوں میں سلائی پھیری گئی. 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: راقم دین کا ایک معمولی طالبعلم ہے لہٰذا درج کردہ مضمون میں غلطی کا امکان قوی ہے. گو جس رائے کو راقم نے بیان کیا ہے وہ جلیل القدر فقہاء بشمول امام ابو حنیفہ رح کی بھی ہے. جن دوسرے جلیل القدر فقہاء نے مقابل رائے اختیار کی ہے وہ سب بھی ہمارے اساتذہ اور سر کا تاج ہیں. گو اس مخصوص مسئلے میں ہم ان سے خود کو متفق نہیں پاتے)

No comments:

Post a Comment