باغی شہزادی
پاکستان کے قیام سے قبل متحده هندوستان میں 565 نوابی ریاستیں تھیں جنہیں انگریزی میں پرنسلی سٹیٹس کہتے هیں۔ ان میں مسلم ریاستیں بھی تھیں جن پر مسلم فرمانروا حکومت کرتے تھے ,هندو ریاستیں بھی تھیں جن پر هندو راجواڑے یا راج خاندان حکومت کرتے تھے اور سکھ ریاستیں بھی شامل تھیں۔
مسلم ریاستوں میں ریاست حیدرآباد دکن سب سے امیر ریاست تھی اور یہاں کے نواب نظام کا لقب استعمال کرتے تھے۔ یه تمام ریاستیں یا تو مغل بادشاهوں کی عطا کی ھوئ بڑی بڑی جاگیروں پر مشتمل تھیں اور یا انکے باغی ھو کر لوگوں کی قائم کرده تھیں۔ ان میں سے اکثر فرمانروا مغلوں کے وفادار تھے اور انکو لگان ادا کرتے تھے بعد ازاں انگریزوں کے برصغیر کے قبضے کے بعد انگریزوں کو لگان وغیره ادا کرتے رھے اور بلآخر هندوستان کی تقسیم کے بعد هندوستان اور پاکستان میں ضم ھو گۓ اور ان ریاستوں کا علیده وجود ختم ھو گیا۔
آج آپکو ان ریاستوں میں سے ایک مسلم ریاست بھوپال کی ایک باغی شہزادی کے بارے میں بتاتے هیں لیکن پہلے ریاست بھوپال کا مختصر احوال۔
• ریاست بھوپال (Bhopal State)
ریاست بھوپال هندوستان کے وسط میں واقع اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی۔ جبکہ 1818ء سے 1947ء تک برطانوی ہندوستان میں ایک نوابی ریاست تھی اور 1947ء سے 1949ء تک ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی۔ اس کا پہلا دار الحکومت اسلام نگر تھا جو بعد میں بھوپال منتقل کر دیا گیا۔
ریاست بھوپال هندوستان کے وسط میں واقع اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی۔ جبکہ 1818ء سے 1947ء تک برطانوی ہندوستان میں ایک نوابی ریاست تھی اور 1947ء سے 1949ء تک ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی۔ اس کا پہلا دار الحکومت اسلام نگر تھا جو بعد میں بھوپال منتقل کر دیا گیا۔
یه ریاست دوست محمد خان نے قائم کی جو مغل فوج میں ایک افغان سپاہی تھے۔ جو شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد ایک باغی ہو گئے اور کئی علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کر لی۔ ریاست بھوپال تقسیم ہند کے وقت دوسری سب سے بڑی ریاست تھی، جبکہ پہلی ریاست حیدرآباد تھی۔ 1949ء میں ریاست کو بھارت میں ضم کر دیا گیا۔بھارت کے 15 اگست 1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد ریاست بھوپال الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے والی آخری ریاستوں میں سے ایک تھی۔ آخری نواب حمید اللہ خان نواب بھوپال نے 30 اپریل 1949ء کو انضمام کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے۔
• ریاست بھوپال کی خواتین حکمران ::
ریاست بھوپال پریکے بعد دیگرے چار خواتین حکمران تخت نشیں ہوئیں۔ مختصراً اِن خواتین حکمران کو بیگماتِ بھوپال کہا جاتا ہے۔
"بیگم بھوپال" غیر منقسم ہندوستان کی نوابی ریاست بھوپال کی خواتین حکمران کا خطابِ شاہی تھا .
ریاست بھوپال پریکے بعد دیگرے چار خواتین حکمران تخت نشیں ہوئیں۔ مختصراً اِن خواتین حکمران کو بیگماتِ بھوپال کہا جاتا ہے۔
"بیگم بھوپال" غیر منقسم ہندوستان کی نوابی ریاست بھوپال کی خواتین حکمران کا خطابِ شاہی تھا .
• پرنسز عابده سلطان ::
پاکستان کرکٹ بورڈ یعنی پی سی بی کے سابق سربراه شہریار محمد خان کی والده اور ریاست بھوپال کے تخت کی وارث شہزادی عابدہ سلطان کی پیدائش 28 اگست 1913 کو هوئ اور انکی وفات 11 مئی 2002 میں ھوئ . وه ریاست بھوپال کے آخری حکمران نواب حمید اللہ خان کی بڑی بیٹی اور آخری ولی عہد تھیں .
بھارتی ریاست بھوپال کی آخری ولی عہد پرنسز عابدہ سلطان ریاست بھوپال کے آخری حکمران نواب حمیداللہ خان کی تین صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں اور اپنے والد کے حکمران بننے کے بعد انیس سو اٹھائیس میں ریاست کی ولی عہد مقرر کی گئیں۔ انہوں نے اپنا بچپن اپنی دادی کے زیر نگرانی جو که ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمران تھیں یعنی بیگم بھوپال سلطان جہان بیگم کے زیر تربیت گزارا، جنہیں وہ ہمیشہ ’سرکار امّاں‘ پکارتی تھیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ یعنی پی سی بی کے سابق سربراه شہریار محمد خان کی والده اور ریاست بھوپال کے تخت کی وارث شہزادی عابدہ سلطان کی پیدائش 28 اگست 1913 کو هوئ اور انکی وفات 11 مئی 2002 میں ھوئ . وه ریاست بھوپال کے آخری حکمران نواب حمید اللہ خان کی بڑی بیٹی اور آخری ولی عہد تھیں .
بھارتی ریاست بھوپال کی آخری ولی عہد پرنسز عابدہ سلطان ریاست بھوپال کے آخری حکمران نواب حمیداللہ خان کی تین صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں اور اپنے والد کے حکمران بننے کے بعد انیس سو اٹھائیس میں ریاست کی ولی عہد مقرر کی گئیں۔ انہوں نے اپنا بچپن اپنی دادی کے زیر نگرانی جو که ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمران تھیں یعنی بیگم بھوپال سلطان جہان بیگم کے زیر تربیت گزارا، جنہیں وہ ہمیشہ ’سرکار امّاں‘ پکارتی تھیں۔
پرنسز عابدہ سلطان کو ریاست کی حکمرانی کی پوری تربیت دی گئی تھی اور انیس سو تیس میں وہ اپنی والد کی چیف سکریٹری مقرر ہوئیں اور بعد میں کابینہ کی صدر منتخب ھوئیں.
پرنسز عابدہ سلطان بر صغیر کی پہلے خاتون تھیں جنہوں نے ہوا بازی سیکھی اور انیس سو بیالیس میں باقاعدہ پائلٹ لائسنس حاصل کیا۔ وہ ایک منجھی ہوئی شکاری بھی تھیں اور ریاست کے اہم مہمانوں کو شیر کے شکار پر لے جایا کرتیں۔
پرنسز عابدہ سلطان بر صغیر کی پہلے خاتون تھیں جنہوں نے ہوا بازی سیکھی اور انیس سو بیالیس میں باقاعدہ پائلٹ لائسنس حاصل کیا۔ وہ ایک منجھی ہوئی شکاری بھی تھیں اور ریاست کے اہم مہمانوں کو شیر کے شکار پر لے جایا کرتیں۔
وہ ہندوستان کی خواتین کی اسکوائش چیمپین تھیں اور ہاکی اور ٹینس کے مقابلوں میں بھی شریک ہوئیں۔ ان کی شادی 1926 میں نواب محمد سرور علی خان سے ھوئ جو که Kurwai State ریاست کوروائ کے نواب تھے۔ اس شادی سے ایک بیٹا تولد ہوا لیکن کچھ ہی عرصے بعد مزاجوں کے اختلافات کے باعث دونوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں علاحدہ زندگیاں گزارنی شروع کر دیں .
تقسیم ہند کے تین سال بعد انیس سو پچاس میں پرنسز عابدہ سلطان بھوپال کی ریاست کی ولی عهد کا حق ترک کر کے اپنے اکلوتے بیٹے شہریار محمد خان کے ساتھ براسته انگلینڈ پاکستان منتقل ہو گئیں۔
تقسیم ہند کے تین سال بعد انیس سو پچاس میں پرنسز عابدہ سلطان بھوپال کی ریاست کی ولی عهد کا حق ترک کر کے اپنے اکلوتے بیٹے شہریار محمد خان کے ساتھ براسته انگلینڈ پاکستان منتقل ہو گئیں۔
پاکستان میں عابدہ سلطان نہایت سادگی سے رہنے لگیں۔ کراچی کے ملیر علاقے میں انہوں نے اپنا گھر بنایا اور بیشتر کام وہ خود کرتیں تھیں اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتیں ۔ شان اور دکھاوے سے بہت پرہیز کرتی تھیں، جب کسی نے ان سے کہا کہ آپ کو اپنی ذاتی گاڑی پر ریاست کی خاص لال نمبر پلیٹ لگانی چاہیے تو کہنے لگیں کہ جب ریاست ہی نہیں ہے تو اتنے انداز اور نخرے کیوں؟
پرنسز عابدہ سلطان نے پاکستان میں سول سروس جوائن کی برازیل میں پاکستان کی سفیر بھی رہیں، لیکن صرف اٹھارہ ماہ بعد وہ سفارت چھوڑ کر پاکستان واپس آگئیں۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ سرکاری نوکری میں انہوں نے اتنی بدعنوانی دیکھی کہ ان سے برداشت نہ ہو سکا۔ پرنسز عابدہ سلطان نے انیس سو چونسٹھ کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے خلاف محترہ فاطمہ جناح کی حمایت کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔
شہزادی عابدہ سلطان پاکستان کے سابق سکریٹری خارجہ اور برطانیہ اور فرانس میں سابق سفیر اور پی سی بی کے سابق سربراه شہریار محمد خان کی والدہ تھیں۔ کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ شہزادی عابده سلطان کی ولی عہد اور ریاست بھوپال کے تخت سے دستبرداری اور پاکستان منتقل ھونے کے بعد انکی چھوٹی بہن ساجده سلطان ریاست کی آخری ولی عہد اور بعد ازں آخری نواب ثابت ھوئیں۔ انکی پیدائش 4 اگست 1915 اور وفات 5 ستمبر 1995 میں ھوئ۔ انکی شادی دهلی اور هریانه کی سرحد کے قریب واقع ایک چھوٹی ریاست پٹودی کے نواب افتخار علی خان سے 23 اپریل 1939 میں میں ھوئ۔
اس شادی سے انکے 4 بچے تولد ھوۓ جس میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا منصور علی خان پٹودی شامل هیں۔ نواب منصور علی خان پٹودی ریاست پٹودی کے نویں نواب اور اکیس سال کی عمر میں هندوستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے انکا نک نیم ٹائیگر تھا۔ اس طرح پی سی بی کے سابق سربراه شہریار محمد خان انکے یعنی منصور علی خان پٹودی کے خاله زاد بھائ هیں۔
منصور علی خان پٹودی نے خود مشہور اداکاره شرمیلا ٹیگور سے شادی کی تھی اور مشہور فلمی اداکار سیف علی خان انکے بیٹے اور کرینه کپور انکی بہو هیں۔
اکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے "پرنسز عابده سلطان" کی یاداشتوں پر مبنی کتاب شائع کی ھے۔
No comments:
Post a Comment