Tuesday, November 6, 2018

ہیرو_ڈیس: تاریخ کی بدکار ترین عورت

Related image


ہیروڈیس
تاریخ کی بدکار ترین عورت


حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ جب روم پر سیزر آگستس حکومت کرتا تھا۔ فلسطین کی سرزمین پر آگستس کا مقرر کردہ ایک گورنر ہیرولڈے اعظم کی حکومت تھی۔
ان دنوں فلسطین کی سرزمین تجارتی اور زراعتی اعتبار سے بہت اہم تھی اور یہ سلطنت روم کو بہت زیادہ پیسہ کما کر دیتی تھی، اس لئے یہاں کا گورنر ہیرولڈ روم کے سیزر کا بہت چہیتا تھا، اس کے علاوہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی وجہ سے ہیرولڈ یروشلم کی عوام یعنی یہودیوں میں بھی بہت زیادہ مقبول تھا۔ ہیرولڈ کےاصطبل کے ایک ملازم کی بیٹی کا نام ہیروڈیاس تھا۔
ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ اپنے حسن میں یکتا تھی، جیسے ہی ہیروڈیاس نے جوانی میں قدم رکھا سارے یروشلم کی نگاہوں کا مرکز بن گئی، ہر شخص کی خواہش تھی کہ ہیروڈیاس اس کی بیوی بنے۔ ہیروڈیاس جہاں بہت زیادہ حسین تھی وہیں اس میں غرور بھی انتہا کا تھا۔ اس کے مطابق اس کا یہ حسن محلوں کی رانی بننے کے قابل تھا اور اس کا حقدار کوئی شہزادہ یا بادشاہ ہی ہو سکتا تھا۔ ہیروڈیاس کا رانی بننے کا خواب آہستہ آہستہ جنون میں بدلنے لگا۔ جب ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو مکمل ہو چکی تو حاکم فلسطین خود اس کے افتتاح کیلئے آیا۔
اس دن یروشلم کسی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا اور ہر شخص (یہودی) جشن منانے میں مصروف تھا۔ اس جشن میں جہاں یروشلم کے مرد و زن شریک تھے وہیں ہیروڈیاس بھی اس جشن میں بھرپور شرکت کر رہی تھی۔ اسی دوران اس کی ملاقات ہیرولڈ کے دوسرے بیٹے فلپ سے ہوتی ہے اور فلپ ہیروڈیاس کے حسن کے جال میں پھنس کر رہ گیا۔ فلپ پہلے سے شادی شدہ تھا مگر ان دنوں بادشاہوں اور شہزادوں کا کئی کئی بیویاں رکھنا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔
فلپ ہیروڈیاس کو اپنے ساتھ اپنے شہر کیساریا لے گیا۔ ہیروڈیاس کی دلی خواہش پوری ہو چکی تھی وہ جھونپڑی سے محل میں آچکی تھی، اس کو ہر وہ چیز اب حاصل ہو چکی تھی جس کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی مگر کیا کریں ہوس کا، ہیروڈیاس کی بلندی پر پہنچنے کی ہوس بھی محل میں پہنچتے ہی مزید بڑھ گئی، اس نے ملکہ بننے کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے۔ فلپ جس کی کسی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی، وہ اپنے وارث کیلئے بہت زیادہ پریشان رہتا تھا۔
ہیروڈیاس کی یہ خواہش تھی کہ وہ فلپ کو وارث دے اور کیساریہ کی ملکہ بن جائے، وقت گزرتا جا رہا تھا مگر بچے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک دن ہیروڈیاس کی ایک کنیز نے اسے ایک بوڑھی عورت کے بارے میں بتایا جو کہ شہر سے باہر ایک غار میں رہتی تھی۔ کنیز نے ہیروڈیاس کو بتایا کہ لوگ اس بوڑھی عورت کے پاس اپنی مرادیں لے کر جاتے ہیں اور کامیاب واپس لوٹتے ہیں۔ ہیروڈیاس نے بوڑھی عورت کے پاس جانے کا ارادہ کنیز سے ظاہر کیا اور کنیز اسے لے کر ایک دن اس بوڑھی عورت کے پاس اس کے غار میں لے جا پہنچی۔ ہیروڈیاس کے پوچھنے پر بوڑھی عورت نے اسے بتایا کہ تیری اولاد ضروری ہو گی اور وہ اتنی مشہور ہو گی کہ تیری اولاد کو لوگ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔
بوڑھی عورت کی اس پیشگوئی پر ہیروڈیاس بہت خوش ہوئی، ابھی وہ اسی خوشی میں تھی کہ بوڑھی عورت پھر گویا ہوئی’لیکن تیری اولاد اپنے گناہ عظیم کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی‘۔ ہیروڈیاس یہ سن کر واپس چلی آئی، چند ہی دنوں بعد ہیروڈیاس امید سے ہوئی اور اس کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام سلومی رکھا گیا مگر فلپ کو اس سے زیادہ خوشی نہ ہوئی کیونکہ وہ لڑکے کی خواہش رکھتا تھا تاکہ اس کے تخت کا کوئی وارث ہو سکے۔
ہیروڈیاس کی اہمیت اس محل میں اب پہلے جیسی نہ رہی، چند ہی دنوں کےبعد فلسطین کا حاکم ہیرولڈ اعظم اور فلپ کا باپ اور ہیروڈیاس کا سسر چل بسا اور اس کی سلطنت اس کے بیٹوں میں تقسیم ہو گئی۔ فلسطین کی تقسیم میں سے سے چھوٹا حصہ فلپ کے حصے میں آیا اور سب سے زیادہ آمدنی والا حصہ جو فلپ کے چھوٹے بھائی اینٹی پاس جسے ہیرولڈ ثانی بھی کہا جاتا ہے کہ حصے میں آیا، ہیروڈیاس اور اینٹی پاس کی پہلی ملاقات ہیرولڈ اعظم کی تدفین کے موقع پر ہوئی۔
اینٹی پاس ایک نوجوان اور مضبوط جسم کا مالک شخص تھا، وہ پہلی ہی نظر میں ہیروڈیاس کے عشق میں مبتلا ہو گیا، یہ ہیروڈیاس کی ادائیں ہی تھیں جس نے اینٹی پاس کو اس کو دیوانہ بنا دیا۔ ہیروڈیاس اب فلپ سے چھٹکارا چاہتی تھی جس کیلئے اس نے اینٹی پاس کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا لیا اور ایک دن فلپ کی سالگرہ کے موقع پر اس کے بھائیوں اور دوسری سلطنت کے حکمرانوں اوررومی سلطنت کے عہدیداروںکو بلاوا بھیجا گیا۔ اینٹی پاس جیسے اسی موقع کی تلاش میں تھا وہ ہیروڈیاس کی محبت میں کھنچا چلا آیا۔

Image result for herodias

ہیروڈیاس نے نہایت چالاکی سے اینٹی پاس سے اپنی ادائوں کا جادو دکھا کر وعدہ لے لیا کہ وہ اسے اپنی ملکہ عالیہ بنائے گا اور ایک دن دونوں موقع دیکھ کر وہاں سے ایک دن بھاگ نکلے۔ اس بات پر فلپ اور اینٹی پاس کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں، بعدازاں رومن حکومتکی مداخلت پر دونوں میں صلح ہو گئی، اینٹی پاس کے کچھ علاقے فلپ کو دے دئیے گئے اور ہیروڈیاس کو اینٹی پاس کے حوالے کر دیا گیا۔ ان دنوں حضرت زکریاؑ کے بیٹے حضرت یحییٰ ؑ یروشلم کے لوگوں میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے، حضرت یحییٰ کو عیسائی یوحناؑ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
آپ ؑ کا انداز گفتگو نہایت شیریں اور نرم ہوتا، لوگ جوق در جوق آپؑ کی باتیں سننے چلے آتے اورآپ ؑ کی تعلیمات سےمتاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ ان دنوں زیادہ تر یہودی عالم رومی سلطنت کے پٹھو ہوتے اور حق بات کہنے سے گھبراتے تھے لیکن حضرت یحییٰ ؑ ہر خوف سے پاک اپنے لوگوں کی تبلیغ کیا کرتے، اور آپؑ کھلے الفاظ میں بادشاہ اینٹی پاس کے اس عمل کی مخالفت کرتے کہ اس نے اپنے بھائی کی بیوی کو بھگا کر اس سے شادی کر لی۔
بادشاہ اینٹی پاس نے اس جانب تو کوئی توجہ نہ دی مگر ہیروڈیاس جو کہ سلطنت کی ملکہ تھی نے آپ کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا اور آپؑ کو اپنے باغ کی سیرابی کے کام پر لگا دیا، ہیروڈیاس نے کئی بار اینٹی پاس کو اس بات پر اکسایا کہ وہ حضرت یحییٰ ؑ کے قتل کا فرمان جاری کر دے مگر اینٹی پاس نہ مانا، ہیروڈیاس اور فلپ کی بیٹی سلومی جس کی خوبصورتی نے اپنی ماں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا جوان ہو چکی تھی اور کئی بادشاہاور شہزادے اس کے خواب دیکھتے تھے ایک دن محل کی کھڑکی سے باغ کا نظارہ کر رہی تھی کہ اس کی نظر حضرت یحییٰؑ پر پڑی ۔ حضرت یحییٰؑ کے چہرے پر ایک معصومیت اورخدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نور تھا کہ وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائی۔
اس نے حضرت یحییٰؑ کو اپنے محل میں طلب کیا اور انہیں دعوت گناہ دی لیکن حضرت یحییٰؑ نے اسے جواب دیا کہ میں تجھے دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوںاور وہاں سے چلے آئے۔ حضرت یحییٰؑ کا انکار سلومی کو ناگوار گزرا اور وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگی، وہ خوبصورتی جس پر اسے غرور تھا اسے ایک قیدی نے ٹھکرا دیا تھا، سلومی کیلئے یہ بات نہایت عجیب اور ہتک آمیز تھی۔
کچھ دنوں بعد بادشاہ اینٹی پاس کی سالگرہ کا دن آن پہنچا جس میں شرکت کیلئے بہت سے حکمران اور روم کی سلطنت کے اعلیٰ عہدیداران شمولیت کیلئے آئے،بادشاہ اینٹی پاس کے قدموں میں تحفوں کے ڈھیر لگے تھے اور ہیروڈیاس بادشاہ اینٹی پاس کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرا تحفہ سب سے عظیم اور اعلیٰ ہو گا کیونکہ آج آپ کے سامنے جشن میں میری بیٹی سلومی رقص کرے گی، ہیروڈیاس نے کئی سال قبل ہی سلومی کو رقص کی تربیت دلوانا شروع کر دی تھی اور وہ اب اس میں یکتا ہو چکی تھی۔
اس رقص کا مقصد بادشاہ اینٹی پاس کو خوشکر کے سلومی کو تخت کا وارث قرار دلوانا تھا۔ پھر بڑے دربار میں سلومی کا رقص شروع ہوا جو کہ بے حیائی کی تمام حدود پھلانگ گیا، سلومی سات رنگ کے سات لباسوں میں ملبوس تھی اور رقص کے دوران اس نے ان سات رنگوں کے سات لباسوں کو باری باری اتار پھینکا۔ یہ رقص کئی گھنٹے جاری رہا اور بادشاہ اور اس کے درباری پلک جھپکے بغیر سلومی کا رقص دیکھتے رہے۔ رقص کے اختتام پر بادشاہ نے کہا کہ مانگو جو مانگنا ہے۔ بدبخت سلومی نے بادشاہ سے حضرت یحییٰؑ کے قتل کی خواہش ظاہر کی، بادشاہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کر سکا کیونکہ وہ بھرے دربار میں وعدہ کر چکا تھا اور یوں اس بدبخت عورت کی خواہش پر حضرت یحییٰؑ کی شہادت ہوئی۔
اس کے کچھ ہی دن بعد روم کا سیزر ٹائبیریس اینٹی پاس سے ناراض ہو گیا اور اس نے اینٹی پاس کے بھتیجے ایگری پاکو اس کی سلطنت پر چڑھائی کا حکم دے دیا، ایگری پا نے اینٹی پاس کو شکست فاش دی اور اینٹی پاس اور ہیروڈیاس کو زنجیریں پہنا کر سر عام روم لے جانے کا حکم دیا، جب ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے دونوں میاں بیوی شہر کی گلیوں سے گزر رہے تھےتو ان کے ستائے ہوئے لوگ انہیں پتھر مار رہے تھے، پھر شہنشاہ روم نے ان دونوں مجرموں کو سپین کے ایک صحرا میں پھنکوا دیا جہاں بھوک اور پیاس سے دونوں کی موت واقع ہوئی۔
سلومی کی باقی زندگی ایگری پا کے بھتیجے ارستوبلس کی غلام بن کر گزری۔ یہ غرور اور تکبر سے بھری اس ملکہ کا حشر ہے جس نے اپنی ساری زندگی ’اورزیادہ‘ کی ہوس میں گزار دی۔
بشکریہ اردو صفحہ

Friday, November 2, 2018

جعلی بینک اکائونٹ پکڑنا کتنا مشکل ؟؟


Image result for fake bank account

آپ جب اپنے ہی بینک اکائونٹ سے کوئی بڑی امائونٹ نکلوانے جاتےہیں تو تقریبا تمام بینکوں کی یہ پالیسی ہے کہ آپ کے اکائونٹ کی پوری تسلی کی جاتی ہے۔ بسا اوقات آپ کا شناختی کارڈ آپ سے طلب کیا جاتا ہے۔
اگر آپ کے پاس بڑی امائونٹ کا چیک ہے جو آپ کسی اور کے کائونٹ سے نکلوانے جا رہے ہیں تو کوئی بھی بینک آپ سے نہ صرف آپ کا شناختی کارڈ طلب کرتا ہے اُس کی کاپی اپنے پاس محفوظ کرتا ہے اکائونٹ کے مالک کے دستخط کو بار بار چیک کیا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اکائونٹ کے مالک کو فون کر پوچھا جاتا ہے کہ کیا کیش کروایا جنے والا چیک اُسی کی طرف سے ایشو کیا گیا ہے یا نہیں۔۔۔۔ ؟؟
بینکوں کی سیکیورٹی حد درجہ سخت ہوتی ہے۔ خصوصا موجودہ دور میں ہر قسم کے بینکوں کی سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کی جا رہی ہوتی ہے۔ بینک کی عمارت سے لے کر بینک میں داخل ہونے اور بینک سے باہر نکلنے کے تمام راستے اور دروازے سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ سے چوبیس گھنٹے مانیٹر کیے جا رہے ہوتے ہیں اور اپنا ریکارڈ خود بخود محفوظ کر رہے ہوتے ہیں۔ 
بینک کے اندر کا کوئی کونہ ان کیمروں کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں ہوتا۔۔۔۔
یہ کیمرے بینک میں داخل ہونے والے اور باہر نکلنے والے ہر متعلقہ یا غیر متعلقہ شخص کا عکس بینک کے ڈیٹا بیس میں محفوظ کررہے ہوتے ہیں۔ کس اکائونٹ سے کتنے پیسے نکلوائے گئے۔ کب نکلوائے گئے ۔ چیک کیش کروانے یا جمع کروانے کا وقت کیا تھا کی تمام تفصیل بینک کے پاس محفوظ ہوجاتی ہے۔۔۔ نا صرف یہ بلک وقت کے کے اُس لمحے میں سی سی ٹی وی کیمرے آپ کی بینک میں آمد اور روانگی کا بھی پورا پورا ریکارڈ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
کسی جعلی کاوئنٹ سے پیسے نکلوانا والا کون تھا ۔۔۔۔ کی تصویر شکل سی سی ٹی وی کیمروں سے لیے گئے فوٹیجز سے ہی مل جائے گی۔موجود دور میں Face Recognition ٹیکنالوجی سے اُس شخص کا پتہ لگوانا چند مشکل نہیں ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا کہ کروڑوں اور اربوں روپے کی ٹرانزیشکن کروانے والے کا 24 گھنٹے کے اندر اندر سراغ نہ لگایا جاسکے۔۔۔۔۔
بینک سے پیسے نکلوانے والا کس سواری پر بینک آیا تھا اُس گاڑی یا موٹر سائیکل کا نمبر کیا تھا کی تفصیل بھی بینک کے باہر کی آمدو رفت کے مناظر محفوظ کرنے والے بینک کے سی سی ٹی وی کیمرے کے ریکارڈ سے لی جا سکتی ہے۔
کم از کم مجھ جیسے بندے کی یہ عقل تسلیم ہی نہیں کرتی کہ ایسے بینک اکائونٹ کا جعلی مالک 24 گھنٹے کے اندر اندر نہ پکڑا جا سکے۔۔۔۔ کروڑوں اور اربوں روپے کسی فالودے یا سبزی والے کے اکائونٹ میں ڈلوانے والے کا سراغ لگانا تو مجھ جیسے ایک عام آدمی کے لیے مشکل نہیں پھر ہماری ایجنسیوں اور قانون نافز کرنے والے اداروں کے پیشہ ور اور زہین و فتین اور جدید ٹیکنالوجی و سہولتوں سے لیس لوگوں کے کتنا مشکل ہوگا کا اندازہ بہت آسانی سے لاگیا جاسکتا ہے۔۔۔
اکثر یہ لفظ اور حقائق لکھتے ہوئے میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیونکہ جتنی قتل و غارت گری فتنہ اور فساد ، قومی سرمائے کی چوری اور ضیاع ہمارے ملک میں ہوتا ہیں۔ اتنا نقصان تو ہمارے دشمن بھی ہمیں آج تک نہیں پہنچا سکے۔۔۔۔ 
جب ملک دشمنوں کی چھٹی ہوئی اور کوٹھوں سے اتری ہوئی طوائفوں کے بچوں کو سوشل میڈیا پر دندناتے اور اپنے جاسوسی کے نیٹ ورک سے پورے ملک میں دیدہ دلیری اور بے خوفی سے فتنہ پھیلاتے دیکھتا ہوں لاکھوں لوگوں کا خونی استحصال ہوتے دیکھتا ہوں تو بسا اوقات غصے سے دماغ کی رگیں پھٹنے کو آجتی ہیں۔۔۔
ہمارا معاشرہ انسانیت پر گالی بن چکا ہے۔۔۔۔۔
چلیں میں اپنے اداروں پر بھی کوئی تنقید نہیں کرتا ۔۔۔۔۔
میں یہ فیصلہ اپنے دوستوں اور سوشل میڈیا کے پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کریں۔۔۔۔۔ کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی ، نفسیاتی و معاشی دہشت گردی اور معاشرتی فشار ظلم نا انصافی کے زمہ دار کون ہیں۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟
تحریر: طاہر ملک

Tuesday, October 30, 2018

ﺍﺯﺩﻭﺍﺟﯿﺎﺕ

Image result for ‫ﺍﺯﺩﻭﺍﺟﯿﺎﺕ‬‎

 

ﭘﮩﻠﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﺗﺠﺮﺑﮧ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﺗﯽ ﮬﯿﮟ ،
ﭘﮩﻠﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﺰﺩﺍ 1979 ﺑﮭﯽ ﮬﻮ ﺗﻮ لینڈ کروزر 2017 ﻟﮕﺘﯽ ﮬﮯ ،،
ﺍﺳﭩﺌﺮﻧﮓ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﺍ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ،

ﭘﮭﺮ ﺟﻮﮞ ﺟﻮﮞ ﺗﺠﺮﺑﮯ ﮐﺎﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺗﻮﺟﮧ ﮈﺭﺍﮨﯿﻮﻧﮓ ﺳﮯ ﮬﭧ ﮐﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮬﻮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ،
ﺍﺳﭩﯿﺌﺮﻧﮓ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻊ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ،
ﮈﯾﻨﭧ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﮩﻠﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﭘﮍﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻧﺌﯽ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ،
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮬﻮ ﮬﯿﺮ ﮬﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮬﮯ ،،،
ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﭻ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﻧﻈﺮ ﺍﺳﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﭩﺘﯽ ،،
ﮬﻤﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﯿﻮﻗﻮﻓﯿﺎﮞ ، ﻧﻔﺴﯿﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺬﺑﺎﺗﯽ ﺣﻤﺎﻗﺘﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﮐﻮﭼﻨﮓ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ ،
ﺑﭽﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﺎﻟﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮬﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ -
ﺟﺐ ﮬﻤﯿﮟ ﺑﯿﻮﯼ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰﮬﮯ ؟
ﺟﺐ ﺗﮏ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺑﭽﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﮩﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﭼﺦ ﭼﺦ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺮ ﮎ ﭘﭽﺎﺱ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ،
22 ﯾﺎ 23 ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﯾﺰﯼ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮩﯽ ﻭﻗﺖ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ،
ﻭﮦ ﺷﻮﮬﺮ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮬﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﻏﺎ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ،،
ﻋﯿﻦ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻕ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ،
ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﻓﻞ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ،،
ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺷﻮﮬﺮ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﭘﮍﺗﺎ ﮬﮯ ،،
ﯾﮧ ﺩﻭﺭﮦ 40 ﺳﮯ 50 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﭘﺎﮔﻞ ﭘﻦ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ " Over Forty Syndrome ﮐﮩﺘﮯ ﮬﯿﮟ -
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩ 90 ٪ ﭘﻼﻧﻨﮓ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ،،
99 ٪ ﻣﺮﺩ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮬﯿﮟ ،
ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ 1 ٪ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮬﯿﮟ ,,
ﮬﺮ ﻣﺮﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﮬﺪ ﺁﻓﺮﯾﺪﯼ ﭼﮭﭙﺎ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﻭﻭﺭﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﺶ ﭼﮭﮑﮯ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﻮ ﺑﯿﺘﺎﺏ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ،،
ﺷﻮﮬﺮ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﯽ ﺍﺳﺘﺤﮑﺎﻡ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺋﻨﺲ ﭘﻮﺍﺋﻨﭧ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ،
ﺟﺒﮑﮧ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﻦ ﭼﮑﮯ ﮬﻮﺗﮯ ﺑﭽﮯ ﮔﺮﯾﺠﻮﯾﺸﻦ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﯾﻮﮞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻣﻨﺰﻝ ﻗﺮﯾﺐ ﮬﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﻮﮬﺮ ﻓﺮﻧﭧ ﺳﯿﭧ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﺑﭩﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ،،
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮬﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮬﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ،،
ﺟﺲ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﯾﺰﯼ ﻟﮯ ﺭﮬﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺑﺎﮬﺮ ﺳﮯ ﺗﻮﺟﮧ ﻣﻠﺘﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﯿﻒ ﺍﻟﻤﻠﻮﮎ ﺳﻤﺠھﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﺭﺕ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﮭﯿﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭﺍﺗﯽ ﮨﮯ
* ﯾﺎ ﺗﻮ ﮨﺎﺭﭦ ﺍﭨﯿﮏ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻓﺎﻟﺞ * ۔
ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﻭﮨﯽ
ﻣﺮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁن پہنچتا ﮨﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺟﻮﺍﻥ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔..

فاشزم کیاہے؟

 Image result for fascism
امریکہ میں ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد تارکینِ وطن سے لے کر ہر طرح کے مظلوم عوام کے خلاف ریاستی اقدامات کا خوفناک سلسلہ جاری ہے۔ اس بربریت کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر امریکی اور یورپی عوام احتجاج کر رہے ہیں۔ امریکہ میں حکمران طبقہ بہت بری طرح سے تقسیم بھی ہے۔ بڑے کاروباریوں کی بہت بڑی پرت امریکہ کو دنیا سے کاٹ کر الگ کرنے اور امریکی بالادستی میں ٹرمپ کی پسپائی پر سخت برہم ہے۔ یوں امریکہ کا معاشی زوال اب سیاسی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ حکمران طبقہ کی تقسیم سے مزدور طبقہ اور مظلوم عوام نے فائدہ اُٹھا کر ایک بڑی تحریک کھڑی کر دی تو ٹرمپ نہ صرف پسپاء ہو گا بلکہ ایک متبادل انقلابی سیاست جو سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو اپنا ایجنڈا بنائے ممکن ہے۔ کئی دانشور ٹرمپ کو فاشسٹ قرار بھی دے رہے ہیں۔ اور کئی معنوں میں جس طرح امیگریشن کنٹرول اور مسلمانوں پر قدغنیں لگانے کے اعلانات ایک چھوٹی سی دائیں بازو کی اقلیت کو اعتماد دلانے کی کوشش ہے تا کہ یہ ریاستی قوت کی پشت پناہی میں ٹرمپ کے مخالفین کو سڑکوں پر چیلنج کریں اور یوں عوام الناس یعنی عام امریکی کو دائیں بازو کے خوف و دہشت میں مبتلا کر کے مزدور طبقہ اور محنت کشوں پر حملہ کیا جائے۔ اسی طرح امریکی سرمایہ دار اپنے معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں۔ جو آج امریکہ میں ہو رہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ٹراٹسکی کی یہ تحریر راہنما ہو سکتی ہے۔ (ادارہ)
فاشزم کیا ہے؟
فاشزم کیا ہے؟ اس لفظ کا آغاز اٹلی میں ہوا۔ جہاں یہ انقلاب دشمن آمریت کی تمام قسموں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ چاہے وہ فاشسٹ تھیں یا نہیں تھیں(اس کا مطلب یہ ہے کہ اٹلی میں فاشزم کی پہچان سے پہلے) اسپین میں پرائموڈی ریور(1923-30 ) کی سابقہ ڈکٹیٹر شپ کو کمیونسٹ انٹرنیشنل(کومینتران) نے فاشسٹ ڈکٹیٹر شپ قرار دے دیا ہے، کیا یہ درست ہے؟ ہمارے خیال میں یہ درست نہیں۔
اٹلی کی فاشسٹ تحریک وقتی ابھار کی عوامی تحریک تھی جس کی نئی قیادت نچلی صفوں سے ابھری تھی عوام سے پھوٹنے والی اس تحریک کو بڑی سرمایہ دار طاقتوں نے مالی امداد اور رہنمائی فراہم کی اس میں پیٹی بورژوا (درمیانے طبقے) کے کچلے ہوئے پرولتاریہ اور محنت کش عوام کی ایک مخصوص تعداد نے شرکت کی۔ مسولینی جو پہلے ایک سوشلسٹ تھا ایک خود ساختہ شخص کی حیثیت سے اس تحریک کے دوران ابھر کر سامنے آ گیا۔ سپین میں پرائموڈی ریورا مرائے حکومت میں سے تھا۔ فوجی اور انتظامی امور میں اسے اہم حیثیت حاصل تھی۔ اور کٹیالونیا کا چیف گورنر تھی تھا۔ اس نے حکومت اور فوج کی قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اٹلی اور سپین کی آمریتیں۔ ڈکٹیٹر شپ کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ اور یہ ضروری ہے کہ ان کے درمیان موجود ہ فرق کو سمجھا جائے مسولینی کو اپنی بے قاعدہ فاشسٹ فوج کے ساتھ روائتی فوج کے بہت سے پرانے اداروں کو کنٹرول کرنے میں کافی مشکل پیش آئی ۔ لیکن پرائموڈی ریورا کو ایسا کوئی مسئلہ در پیش نہ تھا۔جرمنی کی تحریک بہت حد تک اٹلی کی تحریک سے ملتی جلتی ہے۔ یہ بھی ایک عوامی تحریکتھیجس کے لیڈروں نے سوشلسٹ نعرہ بازی کا ڈھونگ رچایا کیونکہ عوام کو متحرک کرنے کے لیے سوشلزم کا نام استعمال کرنا ضروری تھا۔
فاشزم کے لیے حقیقی بنیاد پیٹی بورژوا طبقہ فراہم کرتا ہے۔
اٹلی میں اس طبقے کی بنیادیں بہت گہری ہیں یعنی شہروں قصبوں اور کسانوں میں یہ طبقہ عام پایا جاتا ہے اسی طرح جرمنی میں بھی اس طبقے کی اکثریت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ نیا درمیانہ طبقہ بھی فاشزم کی بنیادوں کو مزید وسیع کر رہا ہے یہ طبقہ حکومتی امور اور پرائیویٹ ادارے چلانے والوں پر مشتمل ہے لیکن یہ ایک نئی صورت حال ہے جس کا تفصیل تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔ فاشزم کے حوالے سے مزید گفتگو کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ فاشزم کی تعریف کی جائے۔ کہ یہ کیا ہے؟ اس کی بنیاد ہیت ترکیبی اور خصوصیات کیا ہیں؟ اور یہ کس طرح نشوونما پاتا ہے۔اس مقصد کے لیے یہ لازم ہے کہ ہم اس کا سائنسی اور مارکسی تجزیہ کریں یہ اقتباس ٹراٹسکی کی طرف سے 15 نومبر1931 ء کو ایک انگریز کامریڈ کو لکھے گئے خط سے لیے گئے جو16 جنوری1932 ء کو جریدہ دی ملیٹنٹ(انگلینڈ) میں شائع ہوا۔
مسولینی نے کیسے فتح حاصل کی؟
جب کسی بورژوا ڈکٹیٹر شپ کی پولیس اور فوجی ذرائع اپنے تمام تر پارلیمانی اختیارات کی آڑ میں کسی معاشرے کوروانی کے ساتھ چلانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ تو فاشسٹ حکومت اقتدار میں آجاتی ہے سرمایہ داری اب فاشزم کی آڑ میں ناراض بورژوا(درمیانے طبقے) اور کچلے ہوئے مایوس لمپن پرولتاریہ(جرائم پیشہ غنڈا گرد محنت کش طبقہ)کو نئے سرے سے جوش دلا کر اپنے حق میں متحرک کر دیتی ہے ۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ان گنت انسانوں کو مصائب اور محرومیوں میں مبتلا کرنے والا سرمایہ دارانہ نظام انہیں فاشزم کے روپ میں ایک مرتبہ پھر جکڑ لیتا ہے۔ فاشزم کے ذریعے بورژوازی(سرمایہ دار طبقہ) ایک مخصوص کام‘‘ سر انجام دینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ ایک طویل سیاسی بے چینی اور خانہ جنگی کے بعد یہ طبقہ کچھ سالوں کے لیے’’مکمل امن‘‘ کا نعرہ لگا دیتا ہے۔اس ’’مخصوص کام‘‘ کو سرانجام دینے کے لیے فاشسٹ ادارے پیٹی بورژوا طبقے کو تخریبی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کر لیتے ہیں اور فاشزم کی فتح کے ساتھ ہی تمام سرمایہ فوری طور پر براہ راست اس کے ہاتھوں میں آجاتا ہے یہی نہیں بلکہ ریاست کے تمام ادارے ،انتظامیہ،تعلیمی ادارے،فوج،بلدیاتی ادارے،پریس،ٹریڈ یونین اور کو آپریٹو سوسائٹیاں وغیرہ فاشزم کے قبضے میں آجاتی ہیں جنہیں فاشسٹ ایک آہنی طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں کسی بھی فاشسٹ حکومت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ حکومت کرنے کا وہی طریقہ کار اپنائے جو مسولینی کا تھا کیونکہ حکومت کا روپ اور طریقہ کار ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ فاشزم میں محنت کش تنظیموں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے اور انہیں ایک محدود دائرے میں سمیٹ دیا جاتا ہے دریں اثناء انتظامیہ کا ایک ایسا نظام مرتب کیا جاتا ہے جو عوام کی صفوں میں گھس کر انہیں محنت کشوں کے’’آزادانہ وجود‘‘ کے خلاف اکساتا ہے۔ اور یہی فاشزم کا بنیادی کردار ہے۔
’’اطالوی فاشزم‘‘ اس ملک کے محنت کشوں کی بغاوت کے دوران اصلاح پسندوں کی غداری کا فوری نتیجہ تھا۔ جنگ عظیم اول کے بعد اٹلی میں انقلابی تحریک کا فی زور پکڑتی جارہی تھی جو 1920 ء میں فیکٹریوں اور دیگر صنعتی اداروں کی بندش پر ختم ہوئی اس وقت محنت کشوں کی ڈکٹیٹر شپ کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ کمی تھی تو صرف اس تحریک کو منظم کرنے اور اس کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی عین اس موقع پر سوشل ڈیموکریسی ڈر کر پیچھے ہٹ گئی اور محنت کش طبقہ اپنی دلیرانہ جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود سوشل ڈیموکریٹوں کے بھاگ جانے سے پیدا ہونے والے خلاء کی وجہ سے اکیلا رہ گیا۔ انقلابی جدوجہد پیدا ہونے والی یہی رکاوٹ فاشزم کی افزائش کا باعث بنی۔ ستمبر میں محنت کشوں کی انقلابی پیش قدمی بالکل رک گئی اور نومبر میں فاشسٹوں نے اپنی طاقت کا سب سے بڑا مظاہرہ کر دیا جو سقوطِ بلوگنا کہلاتاہے۔
ستمبر میں ہونے والے سانحے کے باوجود محنت کش ابھی اس قابل تھے کہ وہ کافی عرصہ تک مزاحمتی جنگ جاری رکھ سکتے لیکن سوشل ڈیموکریٹوں کو صرف ایک ہی چیز سے غرض تھی کہ کچھ رعایتوں کے عوض وہ محنت کشوں کو اس جنگ سے باز رکھ سکیں ان کا خیال تھا۔ کہ ورکرز کا مظلومانہ رویہ بورژوازی کو فاشسٹوں کے خلاف کر دے گا۔ اس کے علاوہ انہیں شہنشاہ وکٹر عماتویل سے بھی مدد کی بہت توقع بھی چنانچہ انہوں نے ورکرز کو پوری قوت کے سے دبائے رکھا اور مسولینی کو جنگ جیتنے میں مدد دی لیکن اس سے انہیں کچھ بھی نہ ملا۔ بادشاہ اور امراء (بالائی بورژواطبقہ) فوراً   ستمبر میں ہونے والے سانحے کے باوجود محنت کش ابھی اس قابل تھے کہ وہ کافی عرصہ تک مزاحمتی جنگ جاری رکھ سکتے لیکن سوشل ڈیموکریٹوں کو صرف ایک ہی چیز سے غرض تھی کہ کچھ رعایتوں کے عوض وہ محنت کشوں کو اس جنگ سے باز رکھ سکیں ان کا خیال تھا۔ کہ ورکرز کا مظلومانہ رویہ بورژوازی کو فاشسٹوں کے خلاف کر دے گا۔ اس کے علاوہ انہیں شہنشاہ وکٹر عماتویل سے بھی مدد کی بہت توقع بھی چنانچہ انہوں نے ورکرز کو پوری قوت کے سے دبائے رکھا اور مسولینی کو جنگ جیتنے میں مدد دی لیکن اس سے انہیں کچھ بھی نہ ملا۔ بادشاہ اور امراء (بالائی بورژواطبقہ) فوراً فاشسٹوں کے ساتھ مل گئے جب آخری وقت میں سوشل ڈیموکریٹوں کو یقین ہو گیا کہ فاشزم کو اطاعت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تو انہوں نے محنت کشوں کو عام ہڑتال کرنے کو کہا ۔ لیکن وقت گزر چکا تھا۔ چنانچہ ان کا یہ اعلان بے سود ثابت ہو اصلاح پسندوں نے بارود کو پھٹنے کے خوف سے اتنی دیر تک دبائے رکھا کہ جب خود انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے آگ لگانا چاہی تو وہ بے کار ہو چکا تھا۔
فاشزم اپنے آغاز سے صرف دو سال بعد اقتدار میں آچکا تھا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اپنے ابتدائی سالوں میں معاشی بہتری کی وجہ سے اسے کافی استحکام مل گیا اور (1921-22 ) میں پیدا ہونے والی معاشی مایوسی کا خاتمہ ہو گیا۔ فاشسٹوں نے آگے بڑھتی ہوئی پیٹی بورژواطاقتوں کے ساتھ مل کر پیچھے ہٹتے ہوئے محنت کشوں کو کچل کر رکھ دیا۔ لیکن یہ مقصد ایک ہی ہلے میں حاصل نہیں ہواتھا۔ اور قتدار میں آنے کے باوجود مسولینی بڑی احتیاط سے آگے بڑھتارہا ابھی اس کے پاس بنے بنائے ماڈلوں کی کمی تھی۔ چنانچہ اپنے اقتدار کے ابتدائی دو سالوں میں اس نے آئین میں بھی کوئی ترمیم نہ کی۔ بلکہ اس نے اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے مخلوط حکومت کی شکل اختیار کئے رکھی اس دوران فاشسٹ گروہ لاٹھیوں،چاقوؤں اور پستولوں کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھے چنانچہ آہستہ آہستہ حقیقی فاشسٹ حکومت نے جنم لینا شروع کر دیا جس کا مقصد تمام عوامی تنظیموں کا گلا دبانا تھا۔
مسولینی یہ سب کچھ کرنے میں اس لیے کامیاب ہو گیا کہ اس نے فاشسٹ پارٹی کے ارکان کو بیوروکریسی میں داخل کر دیا۔ اور پیٹی بورژوازی کو استعمال کرنے کے بعد توڑ پھوڑ دیا ۔جب فاشزم بیوروکریسی میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ فوج اور پولیس کی دوسری قسم کی آمریتوں کے بہت زیادہ قریب ہو جاتا ہے اب اسے وہ سابقہ عوامی حمایت حاصل نہیں رہتی اور فاشزم کا سب سے بڑا حمایتی گروہ (پیٹی بورژوا) بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ اب صرف’’تاریخی جمود‘‘ ہی فاشسٹ حکومت کو اتنی طاقت دے سکتا ہے کہ وہ پرولتاریہ کو بے یقینی اور مایوسی کی حالت میں رکھ سے ۔
جہاں تک ہٹلر کی سیاست کا تعلق ہے تواس ضمن میں جرمن سوشل ڈیموکریٹوں کا کردار اطالوی اصلاح پسندوں سے کچھ مختلف نہیں ۔ جنہوں نے فاشزم کو زمانہ جنگ کے بعد کا ذہنی خلفشار کا بحران قراد یا۔ جبکہ جرمن سوشل ڈیموکریسی نے اسے (2)* ’’ورسیلز‘‘ یا ذہنی خلفشار کا بحران‘‘ کہا ان دونوں صورتوں میں اصلاح پسندوں نے فاشزم کے اس انتہائی اہم کردار سے آنکھیں بند کر لیں جو اس نے اس وقت اپنا یا جب عوامی تحریکیں سرمایہ داری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی تیاری کر رہی تھی۔
محنت کشوں کے متوقع انقلابی اقدامات سے خوفزدہ اطالوی اصلاح پسندوں نے ان کی ساری امیدیں مملکت یعنی سٹیٹ کے ساتھ وابستہ کر دیں۔ کہ سٹیٹ کے تمام دکھوں کا مداوا بنے گی۔ ان کا نعرہ تھا۔’’مدد !وکٹر عمانویل مد! ہماری مدد کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرو‘‘۔
لیکن جرمن سوشل ڈیموکریٹوں کو ایسی کسی جمہوری پناہ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کا آمر مطلق آئین سے وفا دار تھا۔ اس لیے وہ محض اس نعرے پر ہی اکتفا کر لیتے تھے۔ کہ مدد،(3)* ہنڈن برگ!ہماری مدد کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرو۔‘‘
مسولینی کے ساتھ جنگ کے دوران پسپائی کے وقت اٹالین سوشلسٹ پارٹی کے راہنما ٹوراٹی(TURATI ) نے اپنا سنہری مقولہ پیش کیا’’آدمی کو اتنا جواں مرد ہونا چاہیے کہ وہ بزدل بن سکے‘‘جرمن اصلاح پسند نعرے بازی کے معاملے میں کچھ زیادہ پر جوش نہیں تھے البتہ ان کا مطالبہ تھا کہ’’غیر مقبولیت‘‘ کے لیے تہمت چاہیے‘‘ جس کا مطلب بھی اول الذکر مقولے جیسا ہی ہے یعنی آدمی کو دشمن کے مقابلہ میں بزدلی کی وجہ سے جو غیر مقبولیت ملتی ہے اس سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
یکساں مقاصد یکساں اثرات پیدا کرتے ہیں۔ اگر واقعاتی تسلسل سوشل دیموکریٹ پارٹی کے لیڈروں کا مرہون منت ہوتا تو ہٹلر کا مستقبل محفوظ ہو چکا ہوتا۔ تاہم اس حقیقت کو بھی ماننا پڑتا ہے کہ جرمن کمیونسٹ پارٹی نے اطالوی تجربے سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا تھا لیکن بہت کم۔
اطالوی کمیونسٹ پارٹی تقریباً فاشزم کے ظہور کے ساتھ معرض وجود میں آئی لیکن انقلابی اتار چڑھاؤ کی جن کیفیات نے فاشزم کو اقتدار تک پہنچا دیا انہوں نے ہی کمیونسٹ پارٹی کے ارتقاء کو روکے رکھا۔
اس پارٹی نے فاشزم کو خطرے سے نپٹنے کے لیے کبھی بھی اپنا احتساب نہ کیا بلکہ اس نے خود کو انقلابی خوابوں میں الجھائے رکھا۔ اس کا یہ طریقہ کار متحدہ محاذ کے لائحہ عمل سے بالکل الٹ تھا۔ غرضیکہ یہ پارٹی اپنے ابتداء ہی میں’’تمام طفلانہ بیماریوں‘‘ کا شکار ہو چکی تھی۔ یہ قدر ے حیرت کی بات تھی کہ دو سال پہلے قائم ہونے والی اس پارٹی کی نظروں میں فاشزم کا ظہور’’سرمایہ داری کا عمل ‘‘ تھا۔کمیونسٹ پارٹی محنت کشوں کے خلاف پیٹی بورژوازی کی کاوشوں سے جنم لینے والے’’فاشزم‘‘ کے مخصوص کردار کو بھی سمجھنے میں ناکام رہی کچھ اطالوی کامریڈوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ (4)* گرامچی کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کا کوئی فرد فاشزم کے خاتمے کے امکانات کے بارے میں بھی غور کرنے کے لیے تیار نہیں جب ایک مرتبہ محنت کشوں کا انقلاب ناکام ہو جائے سرمایہ داری اپنی جڑیں مضبوط کر لے اور اس کے حق میں ہونے والا جوابی انقلاب کامیاب ہو جائے تو اس کے خلاف ایک نئے جوابی انقلاب کے کیا امکانات رہ جاتے ہیں؟ استحصالی طبقہ (بورژوازی ) اپنے ہی خلاف کیوں کر اٹھ سکتا ہے؟ یہ وہ بنیادی امور تھے جن پر اطالوی کمیونسٹ پارٹی کے سیاسی کردار کا دارومدار تھا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اطالوی فاشزم اس وقت ایک نیا عمل یا ایک نئی چیز تھا۔ جو ابھی اپنی تکمیل کے مراحل طے کر رہا تھا۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں ایک بہت زیادہ تجربہ کار پارٹی کے لیے بھی اس کے ’’مخصوص کردار‘‘ کو سمجھنا بہت مشکل کام ہوتا جبکہ اطالوی کمیونسٹ پارٹی تو ابھی خود ابتدائی مراحل میں تھی۔
آج جرمن کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں نے عین وہیں سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے جہاں اطالوی کمیونسٹ پارٹی نے اسے چھوڑا تھا۔ دونوں کے نقطہ نظر میں حیرت انگیز یکسانیت پائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ’’فاشزم سرمایہ داری کے خلاف رد عمل کے سوا کچھ نہیں‘‘ لیکن محنت کشوں کے نزدیک سرمایہ داری کے رد عمل کے اختلافات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس قسم کی واہیات بنیاد پرستی تو بالکل ہی ناقابل معافی ہے ،کیونکہ اطالوی کمیونسٹ پارٹی کی نسبت جرمن پارٹی بہت پرانی ہے۔ نیز اٹلی میں رونما ہونے والے سانحے کے بعد مارکسزم کا علمی دامن اور بھی اور بھی وسیع ہو چکا ہے۔ جرمن پارٹی کا یہ کہنا کہ فاشزم تو یہاں پہلے سے موجود ہے اور ساتھ ہی اس حقیقت سے انکار کرنا کہ فاشزم کے اقتدار میں آنے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں دراصل سیاسی طور پر ایک جیسے رویے کو ہی ظاہر کرتا ہے اس طرح فاشزم کے کردار کو سمجھے بغیر اس کے خلاف لڑنے کی خواہش خود بخود’’مفلوج ‘‘ ہو جاتی ہے۔
کمیونسٹ انٹرنیشنل بھی ان غلطیوں میں برابر کی شریک ہے کیونکہ اطالوی کمیونسٹ کا فرض یہی تھا۔ کہ وہ اسے ان خطرات سے آگاہ کرتے لیکن سٹالن نے (5 )* مانسکی کے ساتھ مل کر انہیں مجبور کر دیا کہ وہ خاموش تماشائی کی حیثیت سے اپنی تباہی کا تماشا دیکھتے رہیں اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں۔6 * ایر کولائی نے کس ہوشیاری اور چالاکی سے سوشل فاشزم کی پوزیشن تبدیل کر دی تھی۔ یعنی اسے اس مقام پر لے آیا تھا۔ جہاں وہ لاشعوری طور پر جرمنی میں فاشزم کی فتح کا منتظر تھا۔
تحریر:ٹراٹسکی

Sunday, October 21, 2018

محمدبن_سلمان_کس_سےخوفزدہ_ہے؟

Image result for bin salman

محمدبن_سلمان_کس_سےخوفزدہ_ہے؟
رابطہ عالم اسلامی، آل سعود کا عبرتناک سقوط مؤمنین صادقین اور تاریخی گردش :

مغرور ظالم ابن سلمان اپنے انجام کی طرف سرپٹ دوڑ رہاہے، آل سعود کا سقوط شروع ہوچکاہے، مملکت توحید کا استحصال کرنے والے اب تاریخ کا نشان بننے والے ہیں، لاکھوں عام مسلمانوں کو پورے خطہ عربی میں موت کی نیند سلانے والا ٹولہ اپنے خمیر کی طرف بھاگ رہا ہے، اسرائیلی تھنک ٹینک کے تربیت یافتہ اور جارج بش کے منظور نظر سپاہی دراصل اب اپنے انجام سے خوفزدہ ہوچکےہیں اسی خوفزدگی کا نتیجہ ہے سعودیہ میں علماء اسلام کی گرفتاری ائمہ حرمین کی بے حرمتی، فحاشی کے اڈوں کا فروغ، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے پلیٹ فارم کو یرغمال بنا لینا اور اس میں صرف انہی کو باقی رکھنا جو سعودیہ کے سماجی جرائم تو درکنار شرعی منکرات پر خاموش تائید کرسکیں، اب اس رابطہ عالم اسلامی کی بے شرمی اور درباری صفت میں کوئی باک نہیں رہاہے اس رابطے کے سائے تلے اب سعودیہ میں مفکر اسلام مولانا علی میاں ؒ کی کتابوں تک کو دہشتگردی کے اسباب میں شمار کیاگیاہے، تبلیغی جماعت کو بھی دہشتگرد تنظیموں کے برابر کھڑا کیا جارہاہے، اور رابطہ عالم اسلامی کے سعودی سرکاری علما اس پر مہر لگاتے جارہے ہیں ۔ آل سعود کے خطرناک انسانیت سوز اور غیر اسلامی جرائم مصر، شام، عراق، اور یمن تک پھیلے ہوئے ہیں ، جہاں کئی کئی منزلہ عمارتوں اور شہر کی آبادیوں پر خوفناک بمباری سے انسانی آبادیوں کے چتھڑے اڑائے جا رہے تھے، بڑی بڑی عمارتوں کے ملبے میں دبی ہوئی، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی لاشوں کے ایسے بھیانک اور خوفناک مناظر سامنے آرہے تھے، جنہوں نے چنگیز اور ہلاکو کے مظالم کو بھی بھلا دیا تھا، جہاں لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا پوری بےدردی اور آخری درجہ کی درندگی کے ساتھ خاتمہ کیا جا رہا تھا، جس کے شیطانی مکر و فریب سے عام مسلمان تو کیا، علماء اور دانشوروں کی اکثریت بھی واقف نہیں تھی۔
٢٠٠٣ء سے ٢٠١١ء تک عراق میں تقریباً دس لاکھ مسلمان شہید کیے جا چکے تھے، اور ان حملوں کے لیے جزیرۃ العرب کی سرزمین استعمال ہو رہی تھی، پھر شام میں ٢٠١١ء سے ٢٠١۷ء تک تقریباً دس لاکھ مسلمان شہید کر دیئے گئے، اور بیسیوں لاکھ جان بچا کر کسی طرح ترکی میں پناہ گزیں ہوئے تھے، لیکن یہ سب کچھ ہوا آل سعود کی فنڈنگ اور رابطہ عالم اسلامی کی منافقانہ کردار کے سائے تلے، اور آج بھی سعودی قونصلیٹ میں صحافی جمال خشوگی کے وحشیانہ قتل پر رابطہ عالم اسلامی کے درباری علما خاموش ہیں، رابطہ عالم اسلامی کو آل سعود نے دنیا بھر میں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے یرغمال بنا رکھاہے یہاں علما کی پذیرائی درحقیقت علماء حق کی بدترین توہین اور اسلاف کی جراتمندانہ اور شان استغنا والی روایات کو روندنے جیسا ہے، اس رابطہ عالم اسلامی کی خسیس طبیعت اور اس کا، موجودہ ریموٹ کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے یہ سمجھنے کے لیے کیا اتنا ہی کافی نہیں کہ، اسی رابطے نے سرخیل علماء حق عالمِ ربانی، مجتہد زمانہ امام یوسف القرضاوی پر دہشتگردی کا فتویٰ دیا، اسی رابطہ عالم اسلامی کی پلیٹ فارم سے عالم اسلام، عالم عربی میں شریعت اسلامیہ کی سب سے مؤثر نمائندہ تحریک " اخوان المسلمین " پر ارھابی اور دہشتگردی کا لیبل لگایا وہ " اخوان المسلمین " جو اسوقت پورے عالم عرب میں دین و شریعت کی ترجمان ہے، فلسطینی کاز کی علمبردار ہے، اس رابطہ نے اس کو بھی نہیں بخشا، کیا درباری مولویت کی اس سے ذلیل مثال کہیں اور ہوگی؟ اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ کفر و اسلام کے واضح ترین قضیے میں، امریکہ اسرائیل سعودیہ اور ایرانی گٹھ جوڑ کے واضح باطل پڑاﺅ میں ہمارے نمائندے شریک ہوتےہیں؟ کیا یہ ہم مسلمانان ہند کی طرف سے خاموش تائید اور اجماع صنعتی کی مجرمانہ نمائندگی نہیں ہے؟ صاف اور صراحت کے ساتھ یہ خون شہدا کی توہین ہے، یہ اسلام پسند مجاہدین کو غم پہنچانا ہے، یہ جمال خشوگی جیسے بےباک صحافی کی لاش پر اپنی قیادت کا محل تعمیر کرنا ہے، جمال خشوگی کا کیا جرم تھا؟ یہی نا کہ وہ سعودیہ کی غير اسلامي بدعتی اور ظالمانہ پالیسیوں کو آئینہ دکھاتے تھے، حرمین کے خادموں نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کروادیا! اس قتلِ بہیمانہ کا تو آل سعود نے اقرار بھی کرلیا ہے اب کس چیز، کا انتظار ہے؟ واشنگٹن پوسٹ کی تازہ شراکت کے مطابق یہ صاف ہیکہ: امریکی اسٹریٹیجی کو سعودی شہزادہ محمد بن سلمان میں کوئی خرابی نظر نہیں آتیں، نیز محمد بن سلمان سے امریکہ کو کافی فائدہ بھی ہورہاہے ۔
عالم عربی کی موجودہ خونچکاں صورتحال یہ واضح کرتی ہے کہ پورا عالم اسلام ایک انقلابی مرحلے میں داخل ہورہاہے، پوری دنیا میں توحید اور فرزندان توحید بظاہر سرنگوں ہوچکےہیں، امت بظاہر پسپائی کا شکار ہے، طاغوت اور اس کے ہمنوا اسلامی مراکز پر قابض ہیں، عالم اسلام کی ڈور کا ہر سرا باطل کے ہاتھوں میں ہے، بظاہر کتنے ہی کشف و کرامات ہوں کتنی ہی تقدس زدہ ہستی ہو اکثریت کی ڈور کہیں اور ہے ایک صدی سے زیادہ ہوا مسلمانوں کی عالمی ذلّت کو، صدیاں گذر چکی ہیں نسلوں کے بہتے خون اور لٹتی عصمتوں پر، یہ اعمال اور اکتساب کا بدل چل رہاتھا، اب یہ دور اپنے شباب پر ہے بزعم خود علمبرداروں اور ٹھیکیداروں کی شناخت کا دور ہے، سچائی وہی ہے جس پر ان ٹھیکیداروں کے نفسیاتی شکار کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں، یہ منظر پوری دنیا میں مؤمنین کے ساتھ برپا ہے، حکومتی اور سماجی، ہر سطح پر برپا ہے، یہ منظر مزید دراز ہوگا یہاں تک کہ " و لیعلمن الله الذین آمنوا و لیعلمن المنافقین " کا قرآنی نظارہ پیش ہوگا، جھوٹے علمبرداروں اور نفسیاتی ٹھیکیداروں کے بت دھڑادھڑ گر جائیں گے، اہل اسلام کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، اس دوران کامیاب وہی ہے جو صرف اور صرف قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کرامؓ کی روشنی میں اپنی بساط پر متحرک ہوگا، جو خالص ایمانی خطوط پر چلنے والی جماعتوں میں شامل ہوگا، جب بتوں کے انہدام کا دور آئے گا تب ایسے مؤمنین سجدہ ریز ہوں گے اور نفسیاتی مریض مالیخولیا کا شکار ہوں گے، لیکن جب جب ایسی تبدیلی جہاں بھی آئے گی انحرافات و تلبیس کرنے والوں کو بہا کر لےجائے گی، پھر ان کے پاس دوبارہ سر اٹھانے کا، کوئی موقع، کوئی چارہ نہیں ہوگا، پوری دنیا میں یہ تبدیلی شروع ہوچکی ہے، کوئی اس مرحلے میں داخل ہوچکاہے تو کوئی داخل ہونے والا ہے تو کوئی گذررہا ہے، سارے کے سارے بت اپنے انتہائی عروج پر پہنچیں گے اس عروج پر اترائیں گے، سچائی سے منہ موڑیں گے، ایک ہیبت ناک غیر علانیہ " عہد اکبری " برپا ہوگا اور جگہ جگہ اکبر و اتاترک مؤمنین صادقین کو آئینہ دار مؤمن کو نہایت بے رحمی سے الزامات دھر دھر کر بائیکاٹ کر کر کے، کردارکشی اور پروپیگنڈے برسا کر نوچتے پھریں گے، جب یہ منظر خون آشام گرمی پر ہوگا تبھی یہ سب دھڑام سے منہ کے بل پٹخ دیے جائیں گے، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوگا، یہ امم سابقہ میں بھی ہوچکاہے امت محمدیہ میں ہوچکاہے، بارہا ہوا ہے کبھی جزیرہ نمائی تو کبھی ملکی و عالمی سطح پر ہوا ہے، لیکن اب کی سارا عالم اسی گردش میں ہے، اور اس پر قرآن و آثار پکار رہےہیں ۔ فھل من مدکر:؟
سمجھنے والے اور حالات کو عروج و زوال اور آثار سے تطبیق دینے والے خوب سمجھ رہےہیں اور جنہیں نہیں سمجھنا ہے، کج دماغی اور ٹیڑھی طبیعت کا ثبوت دینا ہے اب ان کے لیے مطمئن کرنے جیسا کچھ بھی نہیں بچا ہے سعودیہ کا مسئلہ نفاق کا نہیں اب باطل کے ٹولے کا ہوچکاہے اور یہ دو دو چار کی طرح واضح بھی ہوچکاہے
میں بہت ہی ادب و احترام اور عاجزی کے ساتھ اپنے قائدین عظام سے گذارش کرتاہوں کہ خدارا ہمیں اپنے علماء ہند کے شاندار ماضی کی جھلک دکھلا دیجیے، میں یہ گذارش کرتاہوں سیدنا حضرت مولانا رابع حسنی ندوی مدظلہ سے اور امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ سے، میں آپکے پیروں میں گر کر آپ سے حضرات سے بھیک مانگتا ہوں کہ، علماء و دعاۃ صلحاء و اولیاء کے ان قاتلوں کے ٹولے سے ہم مسلمانان ہند کو علیحدہ فرمادیجیے، دو بول میں کلمه حق کے ذریعے اسلامیان ہند کو اس آل سعود سے علیحدہ فرمادیجیے جو شریعت میں تحریف کررہےہیں اہل الله و عارفین کی پاکیزہ جماعت کو دہشتگرد قرار دے رہےہیں خدا کی قسم ایسے بھیانک جرائم پر الله کی دیر سویر گرفت کا تصور ہی روح فرسا ہے ہم وہاں کے اہل حق کی اگر افرادی کمک نہیں بن سکتے تو کم از کم اس اجماع سکوتی سے ہمیں الگ فرمادیجیے، آپکے دو الفاظ مظلوم اہل حق کے لیے ایمانی غذا بن سکتے ہیں اور کل قیامت کے دن ہم سب ان کے ساتھ ہوں گے ۔
علاوہ ازیں، یہ بات نوٹ کرلینی چاہیے کہ آل سعود کا سقوط شروع ہوچکاہے، ان کے چہرے سے حرمین شریفین کی خدمت کا جھوٹا اور مکروہ نقاب قدرت نے کھینچ کر پھینک دیا ہے ان کی گھناﺅنی اور یہود نواز اصلیت کا سامنا ان کے بدترین سقوط کا آغاز ہے، یقینًا اب مزید تندہی سے اہل حق اس سقوط کی بھینٹ چڑھائے جائیں گے، چن چن کر علما، مبلغین، دعاۃ اور صلحا اذیت گاہوں میں جھونکے جائیں گے بظاہر وہ تعذیب میں ہوں گے، اور خاموشی برتنے والے تسکین میں ہوں گے لیکن اسی دنیا میں چند سالوں کے اندر منظرنامہ الٹنے والا ہے اس کی شروعات ہوچکی ہے، تب یہ سکوت تعذیب کی گھنٹی بجائے گا ۔
مغرور محمد بن سلمان کا عبرتناک حشر شروع ہوچکاہے اسے بھی لکھ لیجیے یہ ظالم جس قدر عروج پر جائے گا اس کی پٹخنی اسی قدر خوفناک ہوگی، عرب کے بعض ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مغرور ابن سلمان ٹینشن اور ڈپریشن کے دور میں داخل ہوچکا ہے، اب اسے کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے، اندرون خانہ بغاوت کی چنگاریاں تیز ہورہی ہیں نیز یہ امر بھی یقینی ہے کہ اب امریکہ و اسرائیل اس ظالم کو اٹھاکر خود ہی پھینک دینگے اور یہ خباثت کا، کاروبار بن نائف کو سونپ دیں، بن سلمان کی ذہنی اذیت کا عالم یہ ہیکہ اپنے محل کے اطراف سیکورٹی کا حصار بڑھاتا جارہاہے، اپنے رشتےداروں سے شدید خوف میں مبتلا ہے معزولی و تقرری کا سلسلہ چل رہاہے، ابھی سے اس کا یہ حال ہوچکاہے کہ، اپنے آپ کو ریاض میں واقع اپنے محل میں محصور کرلیاہے، شدید ترین ضرورت کے علاوہ گیلری میں بھی نہیں نکلتا، بغاوت اور جان لیوا حملے کا یہ خوف اسے آخر کیونکر لاحق ہوا ہے؟ جبکہ اسوقت فوج و انٹلیجنس حتیٰ کہ امریکی دستے بھی اس کی حفاظت کررہےہیں، پھر بھی چین و سکون کیوں غائب ہے "؟ اہل حق کو تو اٹھا اٹھا کر جیلوں میں ٹھونس رہاہے پھر جان لیوا حملے کا خوف کس سے ہے؟ دراصل اسے خوف نہیں، بلکہ اپنے انجام پر یقین ہے کیونکہ تاریخ اپنے کو دوہراتی ہے یہ وہ بھی جانتاہے، خدا کرے ہمارے لوگ بھی اسے سمجھ سکیں ۔

Sunday, October 14, 2018

باغی شہزادی

Image result for ‫شہزادی عابدہ سلطان‬‎

باغی شہزادی 

پاکستان کے قیام سے قبل متحده هندوستان میں 565 نوابی ریاستیں تھیں جنہیں انگریزی میں پرنسلی سٹیٹس کہتے هیں۔ ان میں مسلم ریاستیں بھی تھیں جن پر مسلم فرمانروا حکومت کرتے تھے ,هندو ریاستیں بھی تھیں جن پر هندو راجواڑے یا راج خاندان حکومت کرتے تھے اور سکھ ریاستیں بھی شامل تھیں۔
مسلم ریاستوں میں ریاست حیدرآباد دکن سب سے امیر ریاست تھی اور یہاں کے نواب نظام کا لقب استعمال کرتے تھے۔ یه تمام ریاستیں یا تو مغل بادشاهوں کی عطا کی ھوئ بڑی بڑی جاگیروں پر مشتمل تھیں اور یا انکے باغی ھو کر لوگوں کی قائم کرده تھیں۔ ان میں سے اکثر فرمانروا مغلوں کے وفادار تھے اور انکو لگان ادا کرتے تھے بعد ازاں انگریزوں کے برصغیر کے قبضے کے بعد انگریزوں کو لگان وغیره ادا کرتے رھے اور بلآخر هندوستان کی تقسیم کے بعد هندوستان اور پاکستان میں ضم ھو گۓ اور ان ریاستوں کا علیده وجود ختم ھو گیا۔
آج آپکو ان ریاستوں میں سے ایک مسلم ریاست بھوپال کی ایک باغی شہزادی کے بارے میں بتاتے هیں لیکن پہلے ریاست بھوپال کا مختصر احوال۔

• ریاست بھوپال (Bhopal State)
ریاست بھوپال هندوستان کے وسط میں واقع اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی۔ جبکہ 1818ء سے 1947ء تک برطانوی ہندوستان میں ایک نوابی ریاست تھی اور 1947ء سے 1949ء تک ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی۔ اس کا پہلا دار الحکومت اسلام نگر تھا جو بعد میں بھوپال منتقل کر دیا گیا۔
یه ریاست دوست محمد خان نے قائم کی جو مغل فوج میں ایک افغان سپاہی تھے۔ جو شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد ایک باغی ہو گئے اور کئی علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کر لی۔ ریاست بھوپال تقسیم ہند کے وقت دوسری سب سے بڑی ریاست تھی، جبکہ پہلی ریاست حیدرآباد تھی۔ 1949ء میں ریاست کو بھارت میں ضم کر دیا گیا۔بھارت کے 15 اگست 1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد ریاست بھوپال الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے والی آخری ریاستوں میں سے ایک تھی۔ آخری نواب حمید اللہ خان نواب بھوپال نے 30 اپریل 1949ء کو انضمام کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے۔
• ریاست بھوپال کی خواتین حکمران ::
ریاست بھوپال پریکے بعد دیگرے چار خواتین حکمران تخت نشیں ہوئیں۔ مختصراً اِن خواتین حکمران کو بیگماتِ بھوپال کہا جاتا ہے۔
"بیگم بھوپال" غیر منقسم ہندوستان کی نوابی ریاست بھوپال کی خواتین حکمران کا خطابِ شاہی تھا .

Image result for ‫شہزادی عابدہ سلطان‬‎

• پرنسز عابده سلطان ::
پاکستان کرکٹ بورڈ یعنی پی سی بی کے سابق سربراه شہریار محمد خان کی والده اور ریاست بھوپال کے تخت کی وارث شہزادی عابدہ سلطان کی پیدائش 28 اگست 1913 کو هوئ اور انکی وفات 11 مئی 2002 میں ھوئ . وه ریاست بھوپال کے آخری حکمران نواب حمید اللہ خان کی بڑی بیٹی اور آخری ولی عہد تھیں .
بھارتی ریاست بھوپال کی آخری ولی عہد پرنسز عابدہ سلطان ریاست بھوپال کے آخری حکمران نواب حمیداللہ خان کی تین صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں اور اپنے والد کے حکمران بننے کے بعد انیس سو اٹھائیس میں ریاست کی ولی عہد مقرر کی گئیں۔ انہوں نے اپنا بچپن اپنی دادی کے زیر نگرانی جو که ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمران تھیں یعنی بیگم بھوپال سلطان جہان بیگم کے زیر تربیت گزارا، جنہیں وہ ہمیشہ ’سرکار امّاں‘ پکارتی تھیں۔
پرنسز عابدہ سلطان کو ریاست کی حکمرانی کی پوری تربیت دی گئی تھی اور انیس سو تیس میں وہ اپنی والد کی چیف سکریٹری مقرر ہوئیں اور بعد میں کابینہ کی صدر منتخب ھوئیں.
پرنسز عابدہ سلطان بر صغیر کی پہلے خاتون تھیں جنہوں نے ہوا بازی سیکھی اور انیس سو بیالیس میں باقاعدہ پائلٹ لائسنس حاصل کیا۔ وہ ایک منجھی ہوئی شکاری بھی تھیں اور ریاست کے اہم مہمانوں کو شیر کے شکار پر لے جایا کرتیں۔
وہ ہندوستان کی خواتین کی اسکوائش چیمپین تھیں اور ہاکی اور ٹینس کے مقابلوں میں بھی شریک ہوئیں۔ ان کی شادی 1926 میں نواب محمد سرور علی خان سے ھوئ جو که Kurwai State ریاست کوروائ کے نواب تھے۔ اس شادی سے ایک بیٹا تولد ہوا لیکن کچھ ہی عرصے بعد مزاجوں کے اختلافات کے باعث دونوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں علاحدہ زندگیاں گزارنی شروع کر دیں .
تقسیم ہند کے تین سال بعد انیس سو پچاس میں پرنسز عابدہ سلطان بھوپال کی ریاست کی ولی عهد کا حق ترک کر کے اپنے اکلوتے بیٹے شہریار محمد خان کے ساتھ براسته انگلینڈ پاکستان منتقل ہو گئیں۔
Image result for ‫شہزادی عابدہ سلطان‬‎
پاکستان میں عابدہ سلطان نہایت سادگی سے رہنے لگیں۔ کراچی کے ملیر علاقے میں انہوں نے اپنا گھر بنایا اور بیشتر کام وہ خود کرتیں تھیں اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتیں ۔ شان اور دکھاوے سے بہت پرہیز کرتی تھیں، جب کسی نے ان سے کہا کہ آپ کو اپنی ذاتی گاڑی پر ریاست کی خاص لال نمبر پلیٹ لگانی چاہیے تو کہنے لگیں کہ جب ریاست ہی نہیں ہے تو اتنے انداز اور نخرے کیوں؟
پرنسز عابدہ سلطان نے پاکستان میں سول سروس جوائن کی برازیل میں پاکستان کی سفیر بھی رہیں، لیکن صرف اٹھارہ ماہ بعد وہ سفارت چھوڑ کر پاکستان واپس آگئیں۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ سرکاری نوکری میں انہوں نے اتنی بدعنوانی دیکھی کہ ان سے برداشت نہ ہو سکا۔ پرنسز عابدہ سلطان نے انیس سو چونسٹھ کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے خلاف محترہ فاطمہ جناح کی حمایت کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔
شہزادی عابدہ سلطان پاکستان کے سابق سکریٹری خارجہ اور برطانیہ اور فرانس میں سابق سفیر اور پی سی بی کے سابق سربراه شہریار محمد خان کی والدہ تھیں۔ کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ شہزادی عابده سلطان کی ولی عہد اور ریاست بھوپال کے تخت سے دستبرداری اور پاکستان منتقل ھونے کے بعد انکی چھوٹی بہن ساجده سلطان ریاست کی آخری ولی عہد اور بعد ازں آخری نواب ثابت ھوئیں۔ انکی پیدائش 4 اگست 1915 اور وفات 5 ستمبر 1995 میں ھوئ۔ انکی شادی دهلی اور هریانه کی سرحد کے قریب واقع ایک چھوٹی ریاست پٹودی کے نواب افتخار علی خان سے 23 اپریل 1939 میں میں ھوئ۔
اس شادی سے انکے 4 بچے تولد ھوۓ جس میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا منصور علی خان پٹودی شامل هیں۔ نواب منصور علی خان پٹودی ریاست پٹودی کے نویں نواب اور اکیس سال کی عمر میں هندوستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے انکا نک نیم ٹائیگر تھا۔ اس طرح پی سی بی کے سابق سربراه شہریار محمد خان انکے یعنی منصور علی خان پٹودی کے خاله زاد بھائ هیں۔
منصور علی خان پٹودی نے خود مشہور اداکاره شرمیلا ٹیگور سے شادی کی تھی اور مشہور فلمی اداکار سیف علی خان انکے بیٹے اور کرینه کپور انکی بہو هیں۔
اکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے "پرنسز عابده سلطان" کی یاداشتوں پر مبنی کتاب  شائع کی ھے۔

دنیائے مسلم کا عظیم ستارا

Image may contain: 1 person

دنیائے مسلم کا عظیم ستارا  

آج امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں تاریخ ساز فائٹ لڑی گئی جس میں روسی مسلمان مارشل آرٹسٹ حبیب نورماگومدوف اور آئرش مارشل آرٹسٹ کانر مک گریگر مدِ مقابل تھے۔

یہ تاریخ کا ایک انوکھا مقابلہ تھا۔کانر مک گریگر کو دنیا کا خطرناک ترین مارشل آرٹسٹ اور ناقابلِ شکست تصور کیا جاتا ہے۔لیکن جتنا اچھا وہ فائیٹر ہے اتنا ہی شرپسند اور گالم گلوچ کرنے والا شخص ہے۔مک گریگر کی جانب سے مسلسل حبیب کے مذہب اسلام،خاندان اور ذات کو لے کر حقارت آمیز بیانات آرہے تھے۔ایک پریس کانفرنس میں مک گریگر نے حبیب کو شراب کی بوتل دکھا کر کہا “یہ لو پیو۔”
جس پر حبیب نے کہا ہم شراب نہیں پیتے۔ اس پر حبیب کا مذاق اڑایا گیا۔
مک گریگر طاقت کے نشے میں چور تھا اور حبیب کو کہہ رہا تھا کہ تم میرے سامنے چیونٹی سے زیادہ حقیر ہو اور اس فائٹ کے بعد اپنی ہڈیاں سلامت لے کر واپس نہیں جاؤ گے۔
اس کے جواب میں حبیب نورماگدوف کا ایک ہی جواب ہوتا تھا
“الحمد اللہ۔۔۔!! میرے ساتھ میرا اللہ ہی کافی ہے۔”
ان سب بیانات کی ویڈیوز یو ٹیوب پر موجود ہیں۔

Image may contain: 2 people, people sitting

آج جب یہ مقابلہ شروع ہوا تو لاکھوں مداحوں کے دل کی دھڑکنیں رک سی گئی تھیں۔تمام مسلم دنیا کی نظریں حبیب پر مرکوز تھیں کیونکہ اسلام کا مذاق اڑانے کے بعد یہ مقابلہ صرف کھیل سے کہیں آگے بڑھ چکا تھا۔
یہاں جو مارشل آرٹس سے نا واقف ہیں انہیں یہ بتاتا چلوں کہ یہ عام باکسنگ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس میں Freestyle Kicking & Punching ہوتی ہے اور کچھ سپیشل Moves اتنی خطرناک ہوتی ہیں کہ کبھی کبھی فائیٹرز کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور ایسے میچز بھی ہوئے ہیں جن میں فائیٹرز کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔اس لیے یہ کھیل بہت خطرناک ہے۔
خیر مقابلہ شروع ہوا تو ساری دنیا حیران رہ گئی جب ناقابلِ شکست اور خطرناک سمجھے جانے والے کانر مکگریگر کو حبیب نورماگدوف نے بری طرح سے پیٹا اور چوتھے راؤنڈ میں ہی مک گریگر کی گردن ایسے دبوچی کہ اس نے Tap Out کرکے ہار تسلیم کر لی۔
یہ مارشل آرٹس کی تاریخ کی ایک عظیم فتح ہے۔خصوصاً مسلم دنیا کیلئے کیونکہ ایک مسلمان فائیٹر نے ایک ناقابلِ تسخیر دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔
مقابلہ جیتنے کے بعد حبیب کو جب پھر سے مک گریگر کے کوچ کی جانب سے چند نازیبا الفاظ سے پکارا گیا تو اس بار وہ اپنے غصے کو قابو میں نہ رکھ سکا اور میدان سے کود کر اکیلا ہزاروں کے مجمے میں پہنچا اور مک گریگر کے ساتھیوں کو پیٹ ڈالا۔
انٹرنیشنل میڈیا کو بیان دیتے ہوئے اپنے اس رویے پر حبیب نے معذرت کی ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ مقابلہ جیتنے کے بعد مخالف ٹیم پر حملہ کرنا میری روایت کے خلاف ہے۔آج آپ کو میرا حملہ کرنا تو نظر آ رہا ہے لیکن یہ نہیں نظر آتا کہ مک گریگر نے میرے مذہب کا،میرے والد کا اور میری قوم کا مذاق اڑایا۔مک گریگر اور اس کے ساتھیوں نے ہماری بس پہ بھی حملہ کیا۔میں بحیثیت انسان خود پہ کتنا کنٹرول کرتا؟؟؟
خیر مک گریگر نے جو غرور کیا اس کا سر ایک مسلمان جانباز نے توڑ کر رکھ دیا اور تمام دنیا کو یہ بتا دیا کہ کسی مسلمان کا مذاق اڑانا انہیں کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
اس تاریخ ساز وکٹری پر باکسنگ کے عظیم ستارے “محمدعلی مرحوم” کے بعد ایک اور مسلمان ستارا “حبیب نورماگدوف” مارشل آرٹس کے میدان میں ابھر آیا ہے۔
اللہ ہمیشہ حبیب کو کامیابی سے نوازے۔