Tuesday, November 6, 2018

ہیرو_ڈیس: تاریخ کی بدکار ترین عورت

Related image


ہیروڈیس
تاریخ کی بدکار ترین عورت


حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ جب روم پر سیزر آگستس حکومت کرتا تھا۔ فلسطین کی سرزمین پر آگستس کا مقرر کردہ ایک گورنر ہیرولڈے اعظم کی حکومت تھی۔
ان دنوں فلسطین کی سرزمین تجارتی اور زراعتی اعتبار سے بہت اہم تھی اور یہ سلطنت روم کو بہت زیادہ پیسہ کما کر دیتی تھی، اس لئے یہاں کا گورنر ہیرولڈ روم کے سیزر کا بہت چہیتا تھا، اس کے علاوہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی وجہ سے ہیرولڈ یروشلم کی عوام یعنی یہودیوں میں بھی بہت زیادہ مقبول تھا۔ ہیرولڈ کےاصطبل کے ایک ملازم کی بیٹی کا نام ہیروڈیاس تھا۔
ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ اپنے حسن میں یکتا تھی، جیسے ہی ہیروڈیاس نے جوانی میں قدم رکھا سارے یروشلم کی نگاہوں کا مرکز بن گئی، ہر شخص کی خواہش تھی کہ ہیروڈیاس اس کی بیوی بنے۔ ہیروڈیاس جہاں بہت زیادہ حسین تھی وہیں اس میں غرور بھی انتہا کا تھا۔ اس کے مطابق اس کا یہ حسن محلوں کی رانی بننے کے قابل تھا اور اس کا حقدار کوئی شہزادہ یا بادشاہ ہی ہو سکتا تھا۔ ہیروڈیاس کا رانی بننے کا خواب آہستہ آہستہ جنون میں بدلنے لگا۔ جب ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو مکمل ہو چکی تو حاکم فلسطین خود اس کے افتتاح کیلئے آیا۔
اس دن یروشلم کسی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا اور ہر شخص (یہودی) جشن منانے میں مصروف تھا۔ اس جشن میں جہاں یروشلم کے مرد و زن شریک تھے وہیں ہیروڈیاس بھی اس جشن میں بھرپور شرکت کر رہی تھی۔ اسی دوران اس کی ملاقات ہیرولڈ کے دوسرے بیٹے فلپ سے ہوتی ہے اور فلپ ہیروڈیاس کے حسن کے جال میں پھنس کر رہ گیا۔ فلپ پہلے سے شادی شدہ تھا مگر ان دنوں بادشاہوں اور شہزادوں کا کئی کئی بیویاں رکھنا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔
فلپ ہیروڈیاس کو اپنے ساتھ اپنے شہر کیساریا لے گیا۔ ہیروڈیاس کی دلی خواہش پوری ہو چکی تھی وہ جھونپڑی سے محل میں آچکی تھی، اس کو ہر وہ چیز اب حاصل ہو چکی تھی جس کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی مگر کیا کریں ہوس کا، ہیروڈیاس کی بلندی پر پہنچنے کی ہوس بھی محل میں پہنچتے ہی مزید بڑھ گئی، اس نے ملکہ بننے کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے۔ فلپ جس کی کسی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی، وہ اپنے وارث کیلئے بہت زیادہ پریشان رہتا تھا۔
ہیروڈیاس کی یہ خواہش تھی کہ وہ فلپ کو وارث دے اور کیساریہ کی ملکہ بن جائے، وقت گزرتا جا رہا تھا مگر بچے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک دن ہیروڈیاس کی ایک کنیز نے اسے ایک بوڑھی عورت کے بارے میں بتایا جو کہ شہر سے باہر ایک غار میں رہتی تھی۔ کنیز نے ہیروڈیاس کو بتایا کہ لوگ اس بوڑھی عورت کے پاس اپنی مرادیں لے کر جاتے ہیں اور کامیاب واپس لوٹتے ہیں۔ ہیروڈیاس نے بوڑھی عورت کے پاس جانے کا ارادہ کنیز سے ظاہر کیا اور کنیز اسے لے کر ایک دن اس بوڑھی عورت کے پاس اس کے غار میں لے جا پہنچی۔ ہیروڈیاس کے پوچھنے پر بوڑھی عورت نے اسے بتایا کہ تیری اولاد ضروری ہو گی اور وہ اتنی مشہور ہو گی کہ تیری اولاد کو لوگ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔
بوڑھی عورت کی اس پیشگوئی پر ہیروڈیاس بہت خوش ہوئی، ابھی وہ اسی خوشی میں تھی کہ بوڑھی عورت پھر گویا ہوئی’لیکن تیری اولاد اپنے گناہ عظیم کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی‘۔ ہیروڈیاس یہ سن کر واپس چلی آئی، چند ہی دنوں بعد ہیروڈیاس امید سے ہوئی اور اس کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام سلومی رکھا گیا مگر فلپ کو اس سے زیادہ خوشی نہ ہوئی کیونکہ وہ لڑکے کی خواہش رکھتا تھا تاکہ اس کے تخت کا کوئی وارث ہو سکے۔
ہیروڈیاس کی اہمیت اس محل میں اب پہلے جیسی نہ رہی، چند ہی دنوں کےبعد فلسطین کا حاکم ہیرولڈ اعظم اور فلپ کا باپ اور ہیروڈیاس کا سسر چل بسا اور اس کی سلطنت اس کے بیٹوں میں تقسیم ہو گئی۔ فلسطین کی تقسیم میں سے سے چھوٹا حصہ فلپ کے حصے میں آیا اور سب سے زیادہ آمدنی والا حصہ جو فلپ کے چھوٹے بھائی اینٹی پاس جسے ہیرولڈ ثانی بھی کہا جاتا ہے کہ حصے میں آیا، ہیروڈیاس اور اینٹی پاس کی پہلی ملاقات ہیرولڈ اعظم کی تدفین کے موقع پر ہوئی۔
اینٹی پاس ایک نوجوان اور مضبوط جسم کا مالک شخص تھا، وہ پہلی ہی نظر میں ہیروڈیاس کے عشق میں مبتلا ہو گیا، یہ ہیروڈیاس کی ادائیں ہی تھیں جس نے اینٹی پاس کو اس کو دیوانہ بنا دیا۔ ہیروڈیاس اب فلپ سے چھٹکارا چاہتی تھی جس کیلئے اس نے اینٹی پاس کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا لیا اور ایک دن فلپ کی سالگرہ کے موقع پر اس کے بھائیوں اور دوسری سلطنت کے حکمرانوں اوررومی سلطنت کے عہدیداروںکو بلاوا بھیجا گیا۔ اینٹی پاس جیسے اسی موقع کی تلاش میں تھا وہ ہیروڈیاس کی محبت میں کھنچا چلا آیا۔

Image result for herodias

ہیروڈیاس نے نہایت چالاکی سے اینٹی پاس سے اپنی ادائوں کا جادو دکھا کر وعدہ لے لیا کہ وہ اسے اپنی ملکہ عالیہ بنائے گا اور ایک دن دونوں موقع دیکھ کر وہاں سے ایک دن بھاگ نکلے۔ اس بات پر فلپ اور اینٹی پاس کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں، بعدازاں رومن حکومتکی مداخلت پر دونوں میں صلح ہو گئی، اینٹی پاس کے کچھ علاقے فلپ کو دے دئیے گئے اور ہیروڈیاس کو اینٹی پاس کے حوالے کر دیا گیا۔ ان دنوں حضرت زکریاؑ کے بیٹے حضرت یحییٰ ؑ یروشلم کے لوگوں میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے، حضرت یحییٰ کو عیسائی یوحناؑ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
آپ ؑ کا انداز گفتگو نہایت شیریں اور نرم ہوتا، لوگ جوق در جوق آپؑ کی باتیں سننے چلے آتے اورآپ ؑ کی تعلیمات سےمتاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ ان دنوں زیادہ تر یہودی عالم رومی سلطنت کے پٹھو ہوتے اور حق بات کہنے سے گھبراتے تھے لیکن حضرت یحییٰ ؑ ہر خوف سے پاک اپنے لوگوں کی تبلیغ کیا کرتے، اور آپؑ کھلے الفاظ میں بادشاہ اینٹی پاس کے اس عمل کی مخالفت کرتے کہ اس نے اپنے بھائی کی بیوی کو بھگا کر اس سے شادی کر لی۔
بادشاہ اینٹی پاس نے اس جانب تو کوئی توجہ نہ دی مگر ہیروڈیاس جو کہ سلطنت کی ملکہ تھی نے آپ کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا اور آپؑ کو اپنے باغ کی سیرابی کے کام پر لگا دیا، ہیروڈیاس نے کئی بار اینٹی پاس کو اس بات پر اکسایا کہ وہ حضرت یحییٰ ؑ کے قتل کا فرمان جاری کر دے مگر اینٹی پاس نہ مانا، ہیروڈیاس اور فلپ کی بیٹی سلومی جس کی خوبصورتی نے اپنی ماں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا جوان ہو چکی تھی اور کئی بادشاہاور شہزادے اس کے خواب دیکھتے تھے ایک دن محل کی کھڑکی سے باغ کا نظارہ کر رہی تھی کہ اس کی نظر حضرت یحییٰؑ پر پڑی ۔ حضرت یحییٰؑ کے چہرے پر ایک معصومیت اورخدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نور تھا کہ وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائی۔
اس نے حضرت یحییٰؑ کو اپنے محل میں طلب کیا اور انہیں دعوت گناہ دی لیکن حضرت یحییٰؑ نے اسے جواب دیا کہ میں تجھے دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوںاور وہاں سے چلے آئے۔ حضرت یحییٰؑ کا انکار سلومی کو ناگوار گزرا اور وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگی، وہ خوبصورتی جس پر اسے غرور تھا اسے ایک قیدی نے ٹھکرا دیا تھا، سلومی کیلئے یہ بات نہایت عجیب اور ہتک آمیز تھی۔
کچھ دنوں بعد بادشاہ اینٹی پاس کی سالگرہ کا دن آن پہنچا جس میں شرکت کیلئے بہت سے حکمران اور روم کی سلطنت کے اعلیٰ عہدیداران شمولیت کیلئے آئے،بادشاہ اینٹی پاس کے قدموں میں تحفوں کے ڈھیر لگے تھے اور ہیروڈیاس بادشاہ اینٹی پاس کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرا تحفہ سب سے عظیم اور اعلیٰ ہو گا کیونکہ آج آپ کے سامنے جشن میں میری بیٹی سلومی رقص کرے گی، ہیروڈیاس نے کئی سال قبل ہی سلومی کو رقص کی تربیت دلوانا شروع کر دی تھی اور وہ اب اس میں یکتا ہو چکی تھی۔
اس رقص کا مقصد بادشاہ اینٹی پاس کو خوشکر کے سلومی کو تخت کا وارث قرار دلوانا تھا۔ پھر بڑے دربار میں سلومی کا رقص شروع ہوا جو کہ بے حیائی کی تمام حدود پھلانگ گیا، سلومی سات رنگ کے سات لباسوں میں ملبوس تھی اور رقص کے دوران اس نے ان سات رنگوں کے سات لباسوں کو باری باری اتار پھینکا۔ یہ رقص کئی گھنٹے جاری رہا اور بادشاہ اور اس کے درباری پلک جھپکے بغیر سلومی کا رقص دیکھتے رہے۔ رقص کے اختتام پر بادشاہ نے کہا کہ مانگو جو مانگنا ہے۔ بدبخت سلومی نے بادشاہ سے حضرت یحییٰؑ کے قتل کی خواہش ظاہر کی، بادشاہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کر سکا کیونکہ وہ بھرے دربار میں وعدہ کر چکا تھا اور یوں اس بدبخت عورت کی خواہش پر حضرت یحییٰؑ کی شہادت ہوئی۔
اس کے کچھ ہی دن بعد روم کا سیزر ٹائبیریس اینٹی پاس سے ناراض ہو گیا اور اس نے اینٹی پاس کے بھتیجے ایگری پاکو اس کی سلطنت پر چڑھائی کا حکم دے دیا، ایگری پا نے اینٹی پاس کو شکست فاش دی اور اینٹی پاس اور ہیروڈیاس کو زنجیریں پہنا کر سر عام روم لے جانے کا حکم دیا، جب ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے دونوں میاں بیوی شہر کی گلیوں سے گزر رہے تھےتو ان کے ستائے ہوئے لوگ انہیں پتھر مار رہے تھے، پھر شہنشاہ روم نے ان دونوں مجرموں کو سپین کے ایک صحرا میں پھنکوا دیا جہاں بھوک اور پیاس سے دونوں کی موت واقع ہوئی۔
سلومی کی باقی زندگی ایگری پا کے بھتیجے ارستوبلس کی غلام بن کر گزری۔ یہ غرور اور تکبر سے بھری اس ملکہ کا حشر ہے جس نے اپنی ساری زندگی ’اورزیادہ‘ کی ہوس میں گزار دی۔
بشکریہ اردو صفحہ

Friday, November 2, 2018

جعلی بینک اکائونٹ پکڑنا کتنا مشکل ؟؟


Image result for fake bank account

آپ جب اپنے ہی بینک اکائونٹ سے کوئی بڑی امائونٹ نکلوانے جاتےہیں تو تقریبا تمام بینکوں کی یہ پالیسی ہے کہ آپ کے اکائونٹ کی پوری تسلی کی جاتی ہے۔ بسا اوقات آپ کا شناختی کارڈ آپ سے طلب کیا جاتا ہے۔
اگر آپ کے پاس بڑی امائونٹ کا چیک ہے جو آپ کسی اور کے کائونٹ سے نکلوانے جا رہے ہیں تو کوئی بھی بینک آپ سے نہ صرف آپ کا شناختی کارڈ طلب کرتا ہے اُس کی کاپی اپنے پاس محفوظ کرتا ہے اکائونٹ کے مالک کے دستخط کو بار بار چیک کیا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اکائونٹ کے مالک کو فون کر پوچھا جاتا ہے کہ کیا کیش کروایا جنے والا چیک اُسی کی طرف سے ایشو کیا گیا ہے یا نہیں۔۔۔۔ ؟؟
بینکوں کی سیکیورٹی حد درجہ سخت ہوتی ہے۔ خصوصا موجودہ دور میں ہر قسم کے بینکوں کی سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کی جا رہی ہوتی ہے۔ بینک کی عمارت سے لے کر بینک میں داخل ہونے اور بینک سے باہر نکلنے کے تمام راستے اور دروازے سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ سے چوبیس گھنٹے مانیٹر کیے جا رہے ہوتے ہیں اور اپنا ریکارڈ خود بخود محفوظ کر رہے ہوتے ہیں۔ 
بینک کے اندر کا کوئی کونہ ان کیمروں کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں ہوتا۔۔۔۔
یہ کیمرے بینک میں داخل ہونے والے اور باہر نکلنے والے ہر متعلقہ یا غیر متعلقہ شخص کا عکس بینک کے ڈیٹا بیس میں محفوظ کررہے ہوتے ہیں۔ کس اکائونٹ سے کتنے پیسے نکلوائے گئے۔ کب نکلوائے گئے ۔ چیک کیش کروانے یا جمع کروانے کا وقت کیا تھا کی تمام تفصیل بینک کے پاس محفوظ ہوجاتی ہے۔۔۔ نا صرف یہ بلک وقت کے کے اُس لمحے میں سی سی ٹی وی کیمرے آپ کی بینک میں آمد اور روانگی کا بھی پورا پورا ریکارڈ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
کسی جعلی کاوئنٹ سے پیسے نکلوانا والا کون تھا ۔۔۔۔ کی تصویر شکل سی سی ٹی وی کیمروں سے لیے گئے فوٹیجز سے ہی مل جائے گی۔موجود دور میں Face Recognition ٹیکنالوجی سے اُس شخص کا پتہ لگوانا چند مشکل نہیں ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا کہ کروڑوں اور اربوں روپے کی ٹرانزیشکن کروانے والے کا 24 گھنٹے کے اندر اندر سراغ نہ لگایا جاسکے۔۔۔۔۔
بینک سے پیسے نکلوانے والا کس سواری پر بینک آیا تھا اُس گاڑی یا موٹر سائیکل کا نمبر کیا تھا کی تفصیل بھی بینک کے باہر کی آمدو رفت کے مناظر محفوظ کرنے والے بینک کے سی سی ٹی وی کیمرے کے ریکارڈ سے لی جا سکتی ہے۔
کم از کم مجھ جیسے بندے کی یہ عقل تسلیم ہی نہیں کرتی کہ ایسے بینک اکائونٹ کا جعلی مالک 24 گھنٹے کے اندر اندر نہ پکڑا جا سکے۔۔۔۔ کروڑوں اور اربوں روپے کسی فالودے یا سبزی والے کے اکائونٹ میں ڈلوانے والے کا سراغ لگانا تو مجھ جیسے ایک عام آدمی کے لیے مشکل نہیں پھر ہماری ایجنسیوں اور قانون نافز کرنے والے اداروں کے پیشہ ور اور زہین و فتین اور جدید ٹیکنالوجی و سہولتوں سے لیس لوگوں کے کتنا مشکل ہوگا کا اندازہ بہت آسانی سے لاگیا جاسکتا ہے۔۔۔
اکثر یہ لفظ اور حقائق لکھتے ہوئے میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیونکہ جتنی قتل و غارت گری فتنہ اور فساد ، قومی سرمائے کی چوری اور ضیاع ہمارے ملک میں ہوتا ہیں۔ اتنا نقصان تو ہمارے دشمن بھی ہمیں آج تک نہیں پہنچا سکے۔۔۔۔ 
جب ملک دشمنوں کی چھٹی ہوئی اور کوٹھوں سے اتری ہوئی طوائفوں کے بچوں کو سوشل میڈیا پر دندناتے اور اپنے جاسوسی کے نیٹ ورک سے پورے ملک میں دیدہ دلیری اور بے خوفی سے فتنہ پھیلاتے دیکھتا ہوں لاکھوں لوگوں کا خونی استحصال ہوتے دیکھتا ہوں تو بسا اوقات غصے سے دماغ کی رگیں پھٹنے کو آجتی ہیں۔۔۔
ہمارا معاشرہ انسانیت پر گالی بن چکا ہے۔۔۔۔۔
چلیں میں اپنے اداروں پر بھی کوئی تنقید نہیں کرتا ۔۔۔۔۔
میں یہ فیصلہ اپنے دوستوں اور سوشل میڈیا کے پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کریں۔۔۔۔۔ کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی ، نفسیاتی و معاشی دہشت گردی اور معاشرتی فشار ظلم نا انصافی کے زمہ دار کون ہیں۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟
تحریر: طاہر ملک