Friday, August 10, 2018

بلعم_باعور کتا اور کالی ماتا ! قصص القرآن

Image result for ‫کالی ماتا‬‎
بلعم_باعور
کتا اور کالی ماتا ! قصص القرآن
"بلعم باعور" حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دورکا ایسا عالم تھا جس کے پاس اللہ کا اسم اعظم تھا۔ اس کے پاس اللہ کی کسی کتاب کا ایسا علم تھا کہ وہ جب بھی اس 'اسم اعظم' کے وسیلے سے دعا کرتا تو اللہ اس کی ہر دعا قبول فرماتا تھا۔
بلعم باعور سرزمین شام کا رہنے والا تھا جبکہ اللہ کے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر میں قوم بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کے دعا سے قوم بنی اسرائیل کو مصر کے فرعون سے نجات ملی، فرعون سمندر میں غرق ہوا اور قوم بنی اسرائیل بچ کر دوسری طرف نکل آئی تو اس کے کچھ عرصے بعد اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو سرزمین شام کی طرف جباریوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کو لیکر شام کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت شام میں بلعم باعور رہتا تھا، اس کے پاس اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ 'اسم اعظم تھا'۔ جب شامیوں کو پتا چلا کہ موسیٰ علیہ السلام قوم بنی اسرائیل کو لیکر شام کی طرف آرہے ہیں تو وہ پریشانی کی حالت میں بلعم باعور کے پاس پہنچے۔
یہاں شامیوں اور بلعم باعور کے درمیان وہ گفتگو ہوتی ہے جو قیامت تک کے لیے عبرت کا مقام بنادی جاتی ہے۔ بہت ہی کم لوگ 'بلعم باعور' کو جانتے ہوں گے اس لیے میں نے سوچا کہ اس واقعہ کو زندہ کیا جائے۔ اس واقعہ کو اللہ عزوجل اپنی کتاب قرآن میں ایک مثال کے طور پر بیان فرماتا ہے۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ اللہ عزوجل نے سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کو شام کی طرف جہاد کا حکم دیا تو بلعم باعور وہیں جباریوں میں موجود تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام شام کے قریب پہنچے تو جباریوں کے سردار ' بلعم باعور' کے پاس پہنچ گئے اور اس کہا؛
" اے بلعم باعور ! موسیٰ بہت تیز طبیعت کا ہے، وہ یہاں آگیا ہے، اس کے ساتھ بہت بڑا لشکر ہے، وہ ہمیں اپنے شہروں سے نکال دے گا، ہمیں قتل کرے گا اور یہاں بنی اسرائیلیوں کو آباد کردے گا، تمہارے پاس اسم اعظم ہے، تمہاری ہر دعا قبول ہوتی ہے، تم نکلو اور موسیٰ کے خلاف بددعا کرو کہ وہ یہاں سے چلا جائے"۔
بلعم باعور نے کہا " تمہاری خرابی ہو، موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں، ان کے ساتھ ملائکہ بھی ہیں، وہ ایمان والے لوگ ہیں، میں ان کے خلاف کس طرح بددعا کروں، میں جانتا ہوں کہ موسیٰ کا اللہ کے ہاں کیا مرتبہ ہے، اگر میں بددعا کروں تو میری دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔"
یہ سن کر اس کی قوم پھر بھی اصرار کرتی رہی کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ضرور بددعا کرے۔ بلعم باعور کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جب بھی کوئی دعا کرتا تو پہلے استخارہ کرکے اللہ کی مرضی معلوم کرتا تھا پھر اگر اللہ کی مرضی دعا کے حق میں معلوم ہوجاتی تو پھر دعا کرتا تھا ورنہ نہیں کرتا تھا۔
جب جباریوں نے بلعم باعور سے بےحد اصرار کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے رب کی مرضی معلوم کرتا ہوں۔ پھر اس نے استخارہ کیا اور رات خواب میں اسے جواب ملا کہ "موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بددعا مت کرنا"۔
اس نے اپنی قوم کو بتایا کہ میں نے اپنے رب سے موسیٰ کے خلاف بددعا کی اجازت مانگی مگر میرے رب نے مجھے بددعا کرنے سے منع کردیا ہے۔
قارئین ! یہاں سے شیطان نے اپنا کام شروع کیا۔۔۔ شیطان انہی مواقعے کی تلاش میں ریتا ہے تاکہ بڑے سے بڑے علماء کو بھی سیدھے راستے سے بہکادے۔ اب غور سے پڑھیے کہ شیطان کس طرح اپنا کام کرکے اللہ کے اسم اعظم کے حامل ایک بہت بڑے عالم کو بہکاتا ہے۔
بلعم باعور کا جواب انکار کی صورت میں سن کر اس کی قوم نے شیطان کی مشورے پر چلتے ہوئے اس کے آگے بیشمار ھدیے اور نزرانے پیش کردیے۔ اس کی قوم نے کہا کہ اے بلعم باعور یہ ہدیے اور نزرانے قبول کرو اور اس کے سامنے گریہ و زاری کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ایک مرتبہ پھر اپنے رب سے موسیٰ کے خلاف بددعا کی اجازت مانگو۔ مال مفت دل بےرحم کے مصداق بلعم باعور بھی مفت مال دیکھ کر سوچ میں پڑگیا اور بالآخر ان کی باتوں میں آکر اس نے وہ ھدیے اور نزرانے قبول کرلیے اور قوم سے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر اپنے رب سے موسیٰ کے خلاف بددعا کی اجازت مانگے گا۔
اللہ قرآ ن پاک میں فرماتا ہے؛ " اس کے پیچھے شیطان لگ گیا اور اس کا ساتھی بن گیا اور وہ گمراہ ہو گیا"۔
بلعم باعور نے ایک مرتبہ پھر استخارہ کیا اور رات سو گیا۔ اس دفعہ خواب میں اسے کوئی جواب نہیں ملا۔
اس نے اپنی قوم کو کہا کہ "اس دفعہ مجھے کوئی جواب نہیں ملا"۔ جس پر جباریوں نے اسے کہا کہ اگر تمہارے رب کو موسیٰ کے خلاف بددعا کرنے سے منع کرنا ہوتا تو دوبارہ بھی پہلے جیسا ہی جواب ملتا اس لیے اب تم نکلو اور موسیٰ کے خلاف بددعا کرو تاکہ وہ یہاں سے چلا جائے۔
اللہ فرماتا ہے " فَاَ تْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ
(پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا) شیطان اس کو پیچھے سے ملا اور اس کو آلیا اور اس کا ساتھی بن گیا۔ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ (پس وہ گمراہ لوگوں میں سے ہو گیا) وہ گمراہ کفار میں سے ہو گیا۔
بلعم باعور اپنی قوم (جباریوں) کے بار بار اصرار کرنے پر مجبور ہوکر ایک بلند پہاڑ پر چڑھا اور اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بددعا کے لیے ہاتھ بلند کردیے۔ اللہ نے اس بدبخت کی زبان کو اس کے اختیار سے چھین لیا۔ وہ جو بددعا کے الفاظ دہراتا گیا وہ اپنی ہی قوم جبرایوں کے خلاف نکلتے گئے اور جو اس نے خیر و برکت کی دعا مانگی وہ موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں (بنی اسرائیل) کے حق میں نکلتی گئی۔
جبراریوں نے یہ سنا تو فوراََ بول اٹھے کہ اے بلعم باعور یہ تم نے کیا کردیا۔ موسیٰ کے خلاف بددعا کرنے کا کہا تھا اور تم نے ہمارے خلاف ہی بددعا کردی۔ بلعم باعور کہنے لگا "میری زبان میرے اختیار میں نہیں رہی ہے، یہ الفاظ میری زبان سے خود ہی نکل گئے، اللہ کی قدرت مجھ پر غالب آگئی ہے۔ یہ کہنے کے بعد اس کی زبان باہر نکل کر اس کے سینے پر لٹک گئی۔
بلعم باعور نے اپنی قوم سے کہا : میری تو دنیا و آخرت دونوں برباد ہوگئیں ،اب میں تمہیں ان کے خلاف ایک تدبیر بتاتا ہوں ’’ تم حسین و جمیل عورتوں کو بنا سنوار کر ان کے لشکر میں بھیج دو، اگر ان میں سے ایک شخص نے بھی بدکاری کر لی تو تمہارا کام بن جائے گا کیونکہ جو قوم زنا کرے اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیتا، چنانچہ بلعم کی قوم نے اسی طرح کیا، جب عورتیں بن سنور کر لشکر میں پہنچیں تو ایک کنعانی عورت بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پا س سے گزری تو وہ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے اسے پسند آ گئی۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے منع کرنے کے باوجود اس سردار نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی، اس کی پاداش میں اسی وقت بنی اسرائیل پر طاعون مُسلَّط کر دیا گیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مُشیر اس وقت وہاں موجود نہ تھا جب وہ آیا تو اس نے بدکاری کا قصہ معلوم ہونے کے بعد مرد وعورت دونوں کو قتل کر دیا۔ تب طاعون کا عذاب ان سے اٹھا لیا گیا ، لیکن اس دوران ستر ہزار اسرائیلی طاعون سے ہلاک ہو چکے تھے۔
اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔۔ "اس کی مثال کتے کی جیسی ہے کہ کہ اس سے لڑو یا چھوڑ دو دونوں صورتوں میں اس کی زبان نکلی ہوئی ہوتی ہے یعنی وہ ہر وقت ہانپتا ہی رہتا ہے."
اس واقعہ کا ذکر قرآن پاک کی سورہ الاحزاب کی آیات نمبر 175، 176 اور 177 میں بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ آیات بطور مثال بیان ہوئی ہیں اس لیے ان آیات میں بلعم باعور کا نام نہیں لیا گیا صرف سرسری سا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر آپ ان آیات کی تفسیر کا مطالعہ کریں گے تو اس میں اس میں مذکورا شخص کا نام بلعم باعور اور اس واقعہ کی پوری تفسیل ملے گی۔ قرآن میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے؛
" وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ (175) "
• ترجمہ:
" اور اے محبوب انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا توشیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہوگیا۔"
وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُۚ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِۚ-اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْؕ-ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ (۱۷۶) سَآءَ مَثَلَا- ﰳالْقَوْمُ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنْفُسَهُمْ كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ (176-177)
• ترجمہ:
" اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اُسے اٹھالیتے مگر وہ تو زمین پکڑگیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال "کتے" کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریںکیا بُری کہاوت ہے ان کی جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور اپنی ہی جان کا بُرا کرتے تھے"۔
قارئین !
بلعم باعور جیسے کئی ایسے گمنام اشخاص اس دنیا پر موجود رہے ہیں جن کے پاس اللہ کا کوئی نہ کوئی اسم اعظم تھا اور وہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں کسی بھی چیز کو لانے یا خود پہنچ جانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
اگر ہم حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کا ملکہ بلقیس کا واقعہ پڑھیں تو وہاں بھی سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اسم اعظم کا حامل ایسا عالم ملتا ہے جس نے ملکہ بلقیس کا تخت ہزاروں کلومیٹر دور سے محض آنکھ کے پلک جھپکنے میں سلیمان کی دربار میں حاضر کردیا تھا ۔ اس واقعہ کا ذکر بھی قرآن کریم بھی موجود ہے۔
حضرت خضر علیہ السلام کو کون نہیں جانتا، وہ بھی موسیٰ علیہ السلام کے دورکے ہی ایک بندہ خدا تھے جن کے پاس اسم اعظم اور علم لدنی تھا ۔ خضر علیہ السلام ایک ایسے انسان تھے جن کے پاس اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام سے بھی زیادہ علم تھا۔ تفاسیر میں مذکور ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس علم شریعت تھا لیکن علم لدنی نہیں تھا جبکہ خضر کے پاس علم لدنی تھا مگر علم شریعت نہیں تھا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ عزوجل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس زمین پر مجھ سے زیادہ علم والا شاید ہی کوئی تیرا بندہ ہو، جس کے جواب میں اللہ عزوجل نے فرمایا کہ "خضر" تم سے زیادہ علم والے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ میں اس سے کہاں مل سکتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا کہ "بین سدین" یعنی دو دریاہوں کے ملنے کی جگہ پر وہ تمہیں ملے گا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اپنے خادم کو لیکر چل پڑے اور کہا کہ چاہے کتنے ہی سال کیوں نہ لگ جائیں میں رکوں گا نہیں بلکہ چلتا رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاہوں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں۔ ان شاء اللہ واقعہ خضر علیہ السلام بھی کبھی تفسیل سے لکھوں گا۔
• لالچی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے علماء کے لئے نصیحت :::::
واقعہ بلعم باعور بیان کرنے کا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا عالم دین یا مفتی ہی کیوں نہ ہو، شیطان ہر وقت اس کے پیچھے لگا رہتا ہے اور عین موقع پر گمراہ کردیتا ہے۔ بلعم باعور نے محض ھدیے اور نزرانے دیکھ کر اپنے وقت کے نبی اللہ (سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام) کے خلاف بددعا کرنی چاہیے۔ ہمت ہے اس کی کہ اللہ کی نبی کے خلاف دعا کرنے نکلا تھا۔ اللہ نے اسے اسم اعظم سے نوازا تھا، اللہ فرماتا ہے ہم چاہتے تو اس کے مرتبے کو مزید اوپر کردیتے لیکن وہ دنیا کے ساتھ چمٹ گیا اور شیطان اس کے ساتھ ہولیا اور یوں وہ گمراہ ہوگیا ۔ اللہ نے بلعم باعور کو "کتے" سے تشبیح دی ہے۔
• ہندؤں کا بھگوان "کالی ماتا" یہی بلعم باعور ہے :::::
یہاں میں ایک بات بتانا چاہوں گا کہ ہندوں کا بھی ایک بھگوان "کالی ماتا" ایسا ہی ہے جس کی زبان باہر کو نکلی ہوئی ہوتی ہے، عین ممکن ہے کہ پرانے وقتوں میں بلعم باعور کے مرنے کے بعد جباری قوم کے بت پرستوں نے "بلعم باعور" کو ہی پوجنا شروع کر دیا ہو اور اس کے مرنے کے بعد شیطان نے انہیں بلعم باعور کا بت بناکر اس کی پوجا کرنے کی ترغیب دی ہو اور وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ اس بت کو "کالی ماتا" کا نام دیا گیا۔
ورنہ آج تک دنیا میں کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہو۔ یقیناََ ہندؤں کا بھگوان "کالی ماتا" یہی "بلعم باعور" ہے۔
(واللہ اعلم)
۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment